السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عبداللہ بن عمرو بن عاص کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے اور تلاوتِ قرآن کے بارے میں کچھ ہدایات دی تھیں۔ ان ہدایات کے بعد ان کا طرزِ عمل کیا تھا؟ کیا وہ داؤدی روزہ رکھتے تھے یا بلاناغہ روزے رکھتے تھے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ وہ سات دنوں میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کرتے تھے یا انہوں نے اپنا پہلا معمول باقی رکھا تھا؟ ہمارے ایک دوست اس بات پر مُصر تھے کہ انہوں نے اپنا پہلا معمول باقی رکھا تھا، تبھی تو آخر عمر میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی رخصت کو قبول کر لیتا! کیا ہمارے دوست کا استدلال درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سلسلے کی تمام احادیث کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنا پہلا معمول برقرار نہیں رکھا تھا۔ ان کا عمل اس آخری حد کے مطابق تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی روزے اور تلاوت کے سلسلے میں ان کے لیے مقرر کی تھی۔ احادیث میں بیان کردہ رخصت، جس کے قبول کرنے کا اظہار عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، ہر مہینے کے تین نفلی روزے رکھنے اور مہینے میں قرآن کی تلاوت مکمل کرنے کی رخصت تھی۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اگر میں (ہر مہینے) وہ تین روزے رکھنا قبول کر لیتا، جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، تو یہ مجھے میرے اہل و عیال اور مال سے زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘ (مسلم، الصیام، النھی عن صوم الدھر، ح: 1159)
حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب وہ قوت حاصل کرنا چاہتے تو کچھ دن (نفلی) روزے چھوڑ دیتے اور انہیں گن لیتے اور اتنے روزے بعد میں رکھ لیتے (کیونکہ) وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا عمل چھوڑ دیں جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیا کرتے تھے۔ (ایضا)
اگر وہ پہلے معمول کے مطابق مسلسل روزے رکھتے ہوتے تو جو روزے وہ طاقت حاصل کرنے کے لیے چھوڑتے تھے ان کی ادائیگی ہو ہی نہیں سکتی تھی، جبکہ یہ واضح ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ انہیں بعد میں ادا بھی کیا کرتے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آکری رخصت (صوم داؤدی) پر تھا۔
پورے قرآن کی تلاوت مکمل کرنے کے سلسلے میں بھی آپ کا معمول سات دنوں میں تلاوت مکمل کرنے کا تھا۔ جیسا کہ اس سلسلے کی احادیث میں اس کا بیان ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہ) اپنے گھر والوں کو (قرن مجید کا) وہ حصہ سناتے جو وہ (رات کو نوافل میں) پڑھتے۔ دن کو اس کا دَور کر لیتے تاکہ رات کو (اس کا پڑھنا) ان کے لیے آسان ہو جائے۔ (ایضا)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری تلقین کے مطابق سات دنوں میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کیا کرتے تھے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب