السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ لوگ روزہ نبھانے کے لیے رمضان المبارک میں تمام دن فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں یا تاش کھیلتے رہتے ہیں۔ اسلام میں اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہر مسلمان پر فرض ہے کہ کوئی کام کرتے وقت یا کسی کام کے چھوڑتے وقت، ہر وقت اور ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا خوف نگاہ میں رکھے، اس میں روزہ دار یا غیر روزہ دار کی کوئی قید نہیں ہے۔ اور ان چیزوں کے قریب بھی نہ پھٹکے جو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دی ہیں، جیسے گندی فلمیں جو برہنہ یا نیم برہنہ تصویروں اور بیہودہ گفتگو پر مشتمل ہوتی ہیں، ٹیلی ویثن کے پروگرام بھی عموما ایسی ہی تصویروں، گانوں موسیقی اور گمراہ کن نظریات کے پروپیگنڈہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر مسلمان پر یہ چیز بھی فرض ہے کہ وہ تاش اور اس طرح کے دوسرے لہو و لعب پر مشتمل کھیلوں سے کنارہ کش رہے، کیونکہ ان تمام چیزوں میں بیہودگی اور ناپسندیدگی پائی جاتی ہے اور ان چیزوں سے دل سخت اور بیمار ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے پھر وہ اللہ کی شریعت اور اس کے احکام اور خصوصا نماز باجماعت کی پرواہ نہیں کرتا، اور محرمات کا ارتکاب بھی بے دھڑک کر لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾ وَإِذا تُتلىٰ عَلَيهِ ءايـٰتُنا وَلّىٰ مُستَكبِرًا كَأَن لَم يَسمَعها كَأَنَّ فى أُذُنَيهِ وَقرًا فَبَشِّرهُ بِعَذابٍ أَليمٍ ﴿٧﴾... سورة لقمان
’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو تکبر کرتا ہوا اس طرح منی پھیر لیتا ہے گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں، گویا کہ اس کے دونوں کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں، آپ اسے دردناک عذاب کی خبر سنا دیجیے۔‘‘
سورۃ الفرقان میں اللہ نے ’’عبادالرحمٰن‘‘ کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَالَّذينَ لا يَشهَدونَ الزّورَ وَإِذا مَرّوا بِاللَّغوِ مَرّوا كِرامًا ﴿٧٢﴾... سورة الفرقان
’’اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں۔‘‘
لفظ الزُّورَ کا اطلاق ہر ناپسند بات پر ہوتا ہے، اور﴿لَا يَشْهَدُونَ﴾ کا معنی لا يحضرون ہے یعنی وہ جھوٹ کے قریب بھی نہیں پھٹکتے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(ليكونن من امتى اقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف) (بخاري، الاشربة، ما جاء فیمن یستحل الخمر ۔۔، ح: 5590)
’’میری امت میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوں گے جو بدکاری، ریشم، شراب اور آالاتِ موسیقی کو حلال کر لیں گے۔‘‘
حِر سے مراد حرام کاری ہے، کیونکہ حِر اندامِ نہانی کو کہتے ہیں اور معازف سے مراد موسیقی اور دیگر لہو و لعب کے آلات ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں تک پہنچانے والے وسائل کو بھی حرام قرار دیا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ فلموں اور ٹیلیویژن پر دکھائے جانے والے بیہودہ پروگراموں کا شمار ایسے ہی وسائل میں ہوتا ہے۔ اس لیے ان سے احتراز کرنا چاہئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب