سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(191) رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی عبادت

  • 23561
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1607

سوال

(191) رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی عبادت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا کچھ احباب جماعت سے ایک مسئلہ میں اختلااف ہے جس کی تفصیل یہ ہے: گزشتہ رمضان المبارک کی طاق رات (23 ویں شب) کو شب بیداری اور تلاش لیلۃ القدر کے اشتیاق میں مسجد میں معتکفین و بعض اہل محلہ نے آٹھ رکعات نماز تراویح ادا کرنے کے بعد کچھ دیر توقف کیا اور پھر دوبارہ قیام اللیل کی نیت سے باجماعت نوافل (22 رکعات) اور تین وتر ادا کئے۔ اگلے روز مجھ سے باندازِ شکوہ کہا کہ کل تو آپ حاضر نہ تھے مگر آئندہ ساتھ رہنا ہو گا۔ جس پر میں نے کہا: قیام اللیل، تہجد اور تراویح ایک ہی عبادت کے مختلف نام ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات مابین عشاء و فجر گیارہ رکعات سے زائد ادا نہیں کیں لہذا میں اسی پر اکتفا کرنا اولیٰ اور اوثق سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک کم مگر مسنون عمل بہتر ہے ایک کثیر مگر غیر مسنون عمل سے۔ (جیسا کہ دورانِ سفر پوری نماز پڑھنے والے کی نسبت قصر کرنے والے کو زیادہ ثواب ملتا ہے کہ وہ مسنون طریقے پر ایک اہم فریضہ سے سبکدوش ہوتا ہے۔)

چونکہ ہمارے سامنے صلوٰۃ اللیل کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ موجود ہے لہذا اسی پر اکتفا کرنا چاہئے، کہ فرمانِ الہٰی ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُقَدِّموا بَينَ يَدَىِ اللَّهِ وَرَسولِهِ...﴿١﴾... سورة الحجرات

’’ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے قدم آگے نہ بڑھاؤ۔‘‘

مذکورہ بالا سطور کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری راہنمائی کیجیے۔ امید ہے آپ اپنی پہلی فرصت میں ہماری راہنمائی کریں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے۔ جیسا کہ حدیث ترم قدماه (آپ کے قدموں میں ورم پڑ جاتے) اور دیگر احادیث سے ثابت ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں باقی مہینوں کی بہ نسبت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے۔ بالخصوص آخری عشرے میں تو آپ شب بیداری کرتے، گھر والوں کو بھی جگاتے اور خوب محنت کرتے۔

(بخاري، فضل لیلة القدر، العمل فی العشر الاواخر، ح: 2024، مسلم، ح: 1174)

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول وتر سمیت گیارہ رکعتیں ہوتا تھا۔‘‘

(بخاري، التھجد، قیام النبی صلی اللہ علیه وسلم باللیل فی رمضان۔۔، ح: 1147)

’’آپ انتہائی خوبصورت عبادت کرتے اور لمبا قیام کرتے۔‘‘(بخاري، ح: 1135، 1139،1147، مسلم، ح:774)

لمبے قیام والی نماز افضل ہے۔ (مسلم، ح: 756)

رات کے سب حصوں میں عبادت کرنا زیادہ پسندیدہ ہے۔ (بخاري، ح: 1141)

اگرچہ اولیٰ و اوثق تو یہی ہے کہ نوافل میں نبوی طریق کو سامنے رکھا جائے مگر نوافل میں رکعات زیادہ پڑھنے کی اجازت چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ثابت ہے اس لیے اسے ﴿لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ﴾کی مخالفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور نہ زیادہ نوافل پڑھنا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتار کے خلاف ہے۔ سائل نے بھی نمازِ قصر کی مثال دے کر اسے جائز تسلیم کیا ہے، اگرچہ غیر مسنون کہہ دیا ہے۔ حالانکہ زیادہ یا کم ثواب ملنا ایک بات جبکہ "اللہ اور اس کے رسول سے قدم آگے نہ بڑھاؤ دوسری مختلف بات ہے۔

مسنون تو یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) رات کی نماز پڑھنے لگتے تو پہلے دو رکعت مختصر پڑھتے پھر لمبی نماز شروع کرتے۔ (مسلم، ح: 767-768)

کیا ساری دنیا کے مسلمان سائل سمیت تراویح کا آغاز ایسے ہی کرتے ہیں؟

’’آٹھ رکعتیں پڑھنے کے بعد سو جانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا۔‘‘ (بخاري، ح: 1147)

کیا ایسا نہ کرنا اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنا ہو گا؟

’’وتر کی نماز آپ رات کے آخرت حصے میں پڑھتے تھے۔‘‘ (بخاري، ح: 996، 997)

زیادہ تر معمول یہی تھا۔ کیا پہلے حصے میں ہمیشہ پڑھنا غیر مسنون ہے؟ یقینا نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ (مسلم، ح: 755)

زیادہ نوافل پڑھنے کی اجازت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ان کی ادائیگی کو سنت کی مکالفت یا نبی کی نافرمانی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

(صلوة الليل مثنٰى مثنٰى فاذا خفت الصبح فاوتر بواحدة)(بخاري، التھجد، کیف صلاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔، ح: 1137، مسلم، ح: 749، واللفظ له)

’’رات کی نماز دو دو رکعت ہے جب صبح ہونے کا امکان ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لو۔‘‘

قیس بن طلق فرماتے ہیں کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ رمضان میں ایک روز ہمارے پاس آئے، انہوں نے شام بھی ہمارے پاس کی اور روزہ بھی ہمارے پاس افطار کیا، پھر ہمیں وتر سمیت تراویح پڑھائی اور پھر اپنی مسجد کی طرف چلے گئے، وہاں جا کر انہوں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی اور جب وتر کی باری آئی تو ایک شخص کو آگے کر دیا اور فرمایا:

اپنے رفقاء کو وتر پڑھاؤ، بےشک میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک رات میں دو بار وتر نہیں۔ (ابوداؤد، الوتر، فی نقض الوتر، ح: 1439)

اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز تراویح کے بعد بھی اگر کوئی شخص نفل پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ جن احادیث میں عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک اور فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک نوافل پڑھنے سے منع کیا گیا ہے وہ بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ ان اوقات کے علاوہ باقی اوقات، جن میں نماز پڑھنا منع نہیں، جتنے نوافل آدمی چاہے پڑھ سکتا ہے، شرعا کوئی ممانعت نہیں۔

البتہ رمضان المبارک میں رات کی نماز میں دو قسم کے Setup، کہ ایک کو تراویح اور دوسرے کو قیام اللیل کا نام دیا جائے، مزاجِ شریعت کے مطابق نہیں ہیں۔ یہ ایک ہی نماز کے مکتلف نام ہیں۔ نماز تراویح کے بعد وتر سے پہلے کوئی نوافل پڑھنا چاہے تو مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں اس کی اجازت ہے۔

اگر کسی جگہ عشاء کے فورا بعد تراویح نہ پڑھائی جاتی ہو تو نماز تراویح کو رات کے پچھلے حصے میں پڑھنا بلا اشکال درست بلکہ زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ رات کی نماز کے لیے زیادہ موزوں وقت رات کا پچھلا حصہ ہی ہے۔ قرآن میں ﴿وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ ﴿١٧﴾ (آل عمران 17/3)) اور﴿وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴿١٨﴾ (الذاریات 51/18)) کے الفاظ سے اہل ایمان کی صفت بیان کی گئی ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

رمضان المبارک اور روزہ،صفحہ:454

محدث فتویٰ

تبصرے