سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(185) روزہ افطار کرتے وقت کی خاص دعا؟

  • 23555
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 778

سوال

(185) روزہ افطار کرتے وقت کی خاص دعا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا روزہ افطار کرتے وقت کی کوئی خاص دعا منقول ہے؟ اور اس دوران جبکہ اذان ہو رہی ہوتی ہے روزہ دار اذان کا جواب دے یا کھاتا پیتا رہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

افطاری کا وقت ان اوقات میں سے ہے جن میں دعا قبول ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ افطار کا وقت ایک تو عبادت (روزہ) کا آخری وقت ہوتا ہے اور اس وقت انسان کمزوری سے دوچار ہو چکا ہوتا ہے، اور قاعدہ یہ ہے کہ انسان جب اپنے آپ کو بہت زیادہ کمزور محسوس کرے اس کا دل اس وقت زیادہ نرم ہوتا ہے اور یہ حالت اللہ کی طرف رجوع کے لیے زیادہ موزوں ہوتی ہے، بنا بریں دعا کی قبولیت کا گمان بھی زیادہ قوی ہوتا ہے، اور منقول دعا یہ ہے:

(اللهم لك صمت وعلى رزقك افطرت)(ابوداؤد، الصیام، القول عند الافطار، ح: 2358، سندا یہ روایت ضعیف ہے۔)

’’اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق کے ساتھ افطار کیا۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھنا بھی منقول ہے:

(ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الاجر ان شاء الله)(ایضا، ح: 2357)

’’پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہو گئیں اور اجر ان شاءاللہ ثابت ہو گیا۔‘‘

ان دونوں حدیثوں میں اگرچہ کچھ ضعف پایا جاتا ہے لیکن کچھ اہل علم نے انہیں حسن کا درجہ دیا ہے۔

(نوٹ: اول الذکر دعا کی سند مرسل ہے اور اسے مرسل بیان کرنے والا راوی معاذ بن زہرہ ہے جسے صرف ابن حبان نے ہی ثقہ کہا ہے، تقریب میں اسے مجہول کہا گیا ہے۔ ثانی الذکر دعا کی سند حسن درجے کی ہے۔ (محمد ارشد کمال)

بہرحال اگر آپ یہ دعائیں پڑھ لیں یا ان کے علاوہ کوئی دعا، جو دل سے نکلے، پڑھ لیں۔ یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے۔

جہاں تک افطاری کے دوران جواب دینے کا تعلق ہے تو یہ چیز مشروع ہے، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی:

(اذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن)(بخاري، الاذان، ما یقول اذا سمع المنادی، ح: 611)

’’جب تم اذان سنو تو تم بھی ویسے ہی کہو جیسے مؤذن کہتا ہے۔‘‘

عمومیت کا حامل ہے۔ استثناء کی صورت اگر مل جائے تو ٹھیک وگرنہ اذان کا جواب بہر صورت دینا چاہئے۔

(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

رمضان المبارک اور روزہ،صفحہ:448

محدث فتویٰ

تبصرے