السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہر سال رمضان مبارک کی آمد پر بچوں کے نماز تراویح میں امام بننے پر بسا اوقات بحث و تکرار شروع ہو جاتی ہے۔ آپ راہنمائی کریں کہ کیا تراویح میں بچوں کو امام بنایا جا سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا وفي رواية فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا ، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ)(مسلم، المساجد، من احق بالامامۃ، ح: 673)
’’لوگوں کا امام وہ ہونا چاہئے جو اُن میں قرآن کا بڑا قاری (عالم) ہو اور اگر قراءت میں سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کروائے جو سنت کو سب سے زیادہ جانتا ہو، پھر اگر سنت کے علم میں بھی سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت وہ کروائے جس نے سب سے پہلے (مدینہ کی طرف) ہجرت کی۔ اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو پھر امامت وہ کروائے جو سب سے پہلے مسلمان ہوا، اور (بلا اجازت) کوئی شخص کسی کی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ کسی کے گھر میں صاحبِ خانہ کی مسند پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھے۔‘‘
ایک حدیث میں ’’جو سب سے پہلے مسلمان ہوا‘‘ کی جگہ پر ’’جو عمر میں سب سے بڑا ہو‘‘ کا تذکرہ ملتا ہے۔ (ایضا)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں جو قرآن کا بڑا عالم و قاری ہوتا اُسے امام بنایا جاتا تھا۔
’’عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے قبیلے میں سب سے زیادہ قرآن مجھے یاد تھا۔ پس مجھے امام بنایا گیا حالانکہ میری عمر سات سال تھی۔‘‘ (بخاري، المغازي، ح: 4307)
ایک روایت میں عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ عنہ قرآن زیادہ یاد ہونے کا سبب بھی بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے قرآن سیکھتے تھے۔ میرے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ امامت کروائے۔ میرے والد آ کر کہنے لگے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ امام بنے، لوگوں نے دیکھا تو مجھے سب سے زیادہ قرآن یاد تھا پس میں ان کی امامت کرواتا تھا جبکہ میری عمر آٹھ سال تھی۔‘‘(نسائي، الامامة، امامة الغلام قبل ان یحتلم، ح: 789)
معلوم ہوا کہ نابالغ کی امامت فرض اور نفلی ہر دو نمازوں میں صحیح ہے۔ حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک بھی نفل نماز میں نابالغ لڑکا امام بن سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب