سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(155) کیا عید کے دن جمعہ پڑھنا ضروری نہیں؟

  • 23525
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1427

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر جمعہ کے دن عید آ جائے تو کیا جمعہ پڑھنا ضروری نہیں رہتا؟ لوگوں میں مشہور ہے کہ دو خطبے (عید اور جمعہ) ایک ہی دن آ جائیں تو بھاری ہوتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ مذکورہ بالا صورت میں عید اور جمعہ دونوں ادا کرتے تھے۔ اس لیے مقامی لوگوں کو جمعہ کی ادائیگی کرنی چاہئے البتہ غیر مقامی لوگ کو، جو دُور دراز کے دیہاتوں سے چل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے عید ادا کرتے تھے، آپ نے رخصت دے دی تھی کہ جو اپنے اہل و عیال (دیہات) میں جانا چاہتا ہو (بغیر جمعہ پڑھے) جا سکتا ہے۔ لہذا ایسے لوگ اس سہولت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں عید الفطر اور جمعہ جمع ہو گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید کی نماز پڑھائی اور پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

(قد اجتمع في يومكم هذا عيدان، فمن شاء أجزأه من الجمعة، وإنا مجمعون)(ابوداؤد، الصلاة، اذا وافق یوم الجمعة یوم عید، ح: 1073، ابن ماجه، ح: 1311، حاکم (288/1) نے مسلم کی شرائط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے، البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔)

’’تمہارے اس دن میں دو عیدین جمع ہو گئیں ہیں، تو جو چاہے یہ (نمازِ عید) جمعہ کے بدلے کافی ہے اور بلاشبہ ہم جمعہ پڑھیں گے۔‘‘

معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تمہارے ہوتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو عیدین (جمعہ اور عید) ایک ہی دن اکٹھی ہوئی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ پوچھا کہ تب آپ نے کیسے کیا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے عید کی نماز پڑھی پھر جمعہ کے بارے میں اجازت دے دی اور فرمایا:

(من شاء ان يصلى فليصل)(ابوداؤد، ایضا، ح:1073، نسائي، ح:1592، ابن خزیمة (ح:1464) نے اسے صحیح کہا ہے۔)

’’جو (جمعہ) پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے۔‘‘

اگرچہ عید کی نماز کی بہت زیادہ اہمیت ہے، مگر یہ جمعہ کی طرح فرض نہیں ہے۔ اس کا وقت بھی جمعہ کے وقت سے مختلف ہوتا ہے اس لیے مقامی لوگوں کا جمعہ ادا کرنا ہی بہتر ہے۔

باقی رہا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ دو خطبے بھاری ہوتے ہیں، اس کی کوئی حقیقت نہیں، اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نہ کوئی اشارہ ضرور کرتے کیونکہ جمعہ کے دن عید تو آپ کے عہد میں بھی آئی تھی جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث میں بیان ہوا ہے، نیز عید خیروبرکت کا حامل عمل ہے، اسی طرح جمعہ کی بھی بہت زیادہ فضیلت ہے لہذا اِن کا ایک ہی دن میں آ جانا بھاری اور باعث مشکلات کی بجائے مزید باعثِ رحمت و برکت اور نور علیٰ نور ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نمازِ جمعہ،صفحہ:393

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ