سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) خطبہ جمعہ کے دوران سامعین کا باتیں کرنا؟

  • 23524
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 2908

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خطیب جب جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو تو سامعین کو خاموش رہنا چاہئے۔ دورانِ خطبہ سامعین کآ اپس میں گفتگو کرنا منع ہے۔ (دیکھیے بخاری، ح:934) بعض لوگ کہتے ہیں کہ دورانِ خطبہ تحیۃ المسجد کی دو رکعت بھی ادا نہیں کرنی چاہئیں، کیا یہ قول قابلِ لحاظ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خطبہ جمعۃ المبارک کے دوران میں لوگوں کا آپس میں ہم کلام ہونا درست نہیں البتہ خطیب لوگوں سے اور لوگ خطیب سے ہم کلام ہونا چاہیں تو درست ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگ دعا وغیرہ کے سلسلے میں گفتگو کر لیتے، جبکہ آپ برسر منبر خطبہ ارشاد فرما رہے ہوتے۔ (دیکھیے بخاری، ح:932، 933)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم دورانِ خطبہ میں لوگوں سے کلام کر لیتے تھے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو جمعے کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی (سلیک) آیا، آپ نے اس سے پوچھا:

(اصليت يا فلان؟)

’’ارے! آپ نے (تحیۃ المسجد کی) نماز پڑھ لی ہے؟‘‘

اس نے عرض کیا کہ نہیں، آپ نے فرمایا:

(قم فاركع)(بخاري، الجمعة، اذا رای الامام رجلا جاء وھو یخطب امرہ ان یصلی رکعتین، ح: 930)

’’اٹھو اور نماز ادا کرو۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:

(فصل ركعتين)(ایضا، من جاء والامام یخطب صلی رکعتین خفیفتین، ح: 931)

’’دو رکعت ادا کرو۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ ان رکعتوں کی ادائیگی اس کلام میں شامل نہیں جس کی دوران خطبہ ممانعت ہے۔ ابوسعید خدری جمعہ کے دن آئے جبکہ مروان خطبہ پڑھ رہا تھا۔ آپ (رضی اللہ عنہ) نماز پڑھنے لگے۔ آپ کو بٹھانے کے لیے چوکیدار آئے مگر آپ نے انکار کر دیا، یہاں تک کہ آپ نے نماز (تحیۃ المسجد) پڑھی، جب آپ نماز جمعہ سے فارغ ہوئے تو ہم آپ کے پاس آئے، ہم نے عرض کی: اللہ آپ پر رحم کرے! یہ لوگ تو آپ پر حملہ کرنے والے تھے۔ انہوں نے فرمایا: میں نے جو کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے میں اسے کبھی چھوڑنے والا نہیں ہوں، پھر انہوں نے بتایا کہ ایک آدمی جمعہ کے دن پریشان شکل میں آیا، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کا خطبہ دے رہے تھے، اس نے آپ کے حکم سے دو رکعت پڑھیں جبکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے۔

(ترمذي، الجمعة، ما جاء فی الرکعتین اذا جاء الرجل والامام یخطب، ح:511)

ان سب روایات میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ خطبہ میں تھے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"فاذا جاء والامام يخطب فليركع ركعتين وليتجوز فيهما رعاية للسنة الراتبة و ادب الخطبة جميعا بقدر الامكان ولا تغتر فى هذه المسئلة بما يلهج به اهل بلدك فان الحديث صحيح واجب اتباعه"

’’جب کوئی اس حالت میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت ادا کرے مگر جہاں تک ہو سکے ان رکعتوں کو مختصر ادا کرے تاکہ سنت راتبہ اور ادبِ خطبہ ہر دو کا لحاظ رکھا جا سکے۔ اپنے شہر کے لوگوں کو شور (یعنی ان رکعات سے روکنے) کی وجہ سے اس مسئلہ میں دھوکا نہ کھانا، کیونکہ یہ حدیث صحیح ہے جس کی اتباع کرنا واجب ہے۔‘‘(حجة اللہ البالغة 101/2)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نمازِ جمعہ،صفحہ:392

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ