السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نابینا آدمی امام بن سکتا ہے یا نہیں؟ اس پر ہمارے گاؤں میں بہت بحث چلتی رہی، جو حضرات کہتے تھے کہ نابینا شخص امام نہیں بن سکتا ان کا کہنا تھا کہ وہ چونکہ گندگی سے نہیں بچ سکتا، اس لیے اسے امام نہیں بنایا جا سکتا، مثلا ہو سکتا ہے کہ کوئی جانور کتا وغیرہ اس پر چھینٹے ڈال دے اور اسے خبر بھی نہ ہو!
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرائطِ امام پر پورا اُترنے والے نابینا شخص کو امام مقرر کرنا جائز ہے اور اس کی اقتداء میں نماز ادا کرنا بلا کراہت درست ہے۔ نابینا کی امامت درست ہونے کی صحیح اور واضح دلیل درج ذیل حدیث ہے، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"ان النبى صلى الله عليه وسلم استخلف ابن ام مكتوم يؤم الناس وهو اعمى"(ابوداؤد، الصلاة، امامة الاعمي، ح:595)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو (مدینہ میں دوبار) اپنا نائب بنایا، وہ لوگوں کو نماز کی امامت کرواتے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔‘‘
باقی یہ اشکال کوئی حیثیت نہیں کہ نابینا آدمی اس لیے امام نہیں بن سکتا کہ وہ نجاست سے نہیں بچ سکتا۔ کیونکہ انسان حسبِ استطاعت ہی احکامِ شریعت کا پابند ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة
’’اللہ کسی جان کو اُس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر نابینا آدمی بحیثیت مقتدی نماز پڑح رہا ہو تو اس کی نماز یقینا جائز ہو گی، تو پھر اس کا امام بننا کیونکر درست نہیں ہو گا۔ حالانکہ جو طہارت امام کے لیے ضروری ہے وہی مقتدی اور منفرد کے لیے ضروری ہے۔
مزید برآں نابینا شخص کے امام بنانے کا تعامل بھی تمام مکاتبِ فکر میں پایا جاتا ہے۔ نابینا شخص کا کوئی قصور نہیں کہ اسے امام بننے کی سعادت سے صرف اس لیے محروم رکھا جائے کہ وہ بینائی سے محروم ہے۔
بعض حنفی علماء نے بھی نابینا کی اقتداء میں نماز کو صحیح قرار دیا ہے۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی سے کسی نے سوال پوچھا کہ ہمارے امام صاحب ایک بڑے عالم ہیں، لیکن آنکھوں سے معذور ہیں تو کیا میں ان کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہوں، اگر نہیں تو کیا صرف جمعہ کی نماز پڑھ سکتا ہوں؟ تو موصوف نے بعض علماء کے بلا دلیل اقوال کا "رکھ رکھاؤ" کرنے کے باوجود نابینا عالم کی امامت کو درست قرار دیا۔ انہوں نے لکھا: ’’نابینا امام کے پیچھے نماز اس صورت میں مکروہ ہے جبکہ پاکی پلیدی میں احتیاط نہ کر سکتا ہو ورنہ بلا کراہت صحیح ہے۔ جمعہ کا اور پنجگانہ نمازوں کا ایک ہی حکم ہے۔‘‘
اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ نابینا شخص بھی پاکی پلیدی میں احتیاط کر سکتا ہے، لہذا اُس کے پیچھے نماز ادا کرنا بلا کراہت صحیح ہے۔ اس سلسلے میں حرفِ آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے کہ آپ نے اپنے نابینا مؤذن کو امام مقرر کیا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب