سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(148) مقتدی کو (سمع الله لمن حمده) کہنا چاہئے؟

  • 23518
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1189

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مقتدی کو رکوع سے اٹھتے ہوئے (ربنا ولك الحمد) کہنے پر اکتفا کرنا چاہئے یا پھر اس سے قبل (سمع الله لمن حمده) بھی کہنا چاہئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنت کے زیادہ قریب اور راجح موقف یہی ہے کہ امام، مقتدی اور منفرد سب رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے (سمع الله لمن حمده) کہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة يكبر حين يقوم ، ثم يكبر حين يركع ، ثم يقول : سمع الله لمن حمده ، حين يرفع صلبه من الركعة ، ثم يقول وهو قائم : ربنا ولك الحمد(بخاري، الاذان، التکبیر اذا قام من السجود، ح: 789)

’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے اٹھتے تو کھڑے ہو کر الله اكبر کہتے، پھر جب رکوع کرتے تو بھی تکبیر کہتے پھر رکوع سے اٹھتے ہوئے(سمع الله لمن حمده) کہتے ہوئے کھڑے ہو کر (قومہ میں) یہ پڑھتے: (ربنا ولك الحمد)‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ (سمع الله لمن حمده) رکوع سے اٹھتے وقت پڑھنا چاہئے جبکہ (ربنا ولك الحمد)حالت قومہ میں پڑھنا چاہئے، تو یہ معلوم ہوا کہ یہ دو مختلف موقعوں کے اذکار ہیں۔ لہذا امام و مقتدی اور منفرد ہر ایک کے لیے مشروع ہے کہ وہ (سمع الله لمن حمده) بھی کہے اور (ربنا ولك الحمد) بھی۔ مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ امام و مقتدی ہر دو (سمع الله لمن حمده) کہیں اور پھر ہر دو(ربنا ولك الحمد) کہیں۔ (شرح بخاري 668/1)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طریقے کے مطابق ہی لوگوں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا تھا:

(صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي ، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاةُ ، فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ)(بخاري، الاذان، الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعة والاقامة۔۔، ح:631)

’’اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، جب نماز کا وقت آ جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو تم میں سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔‘‘

اس حدیث کے عمومی مفہوم کا تقاضا ہے کہ ہر نمازی (سمع الله لمن حمده) کہے۔ مگر انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(واذا قال: سمع الله لمن حمده فقولوا: ربنا ولك الحمد)(ایضا، ایجاب التکبیر و افتتاح الصلوٰة، ح: 732،734)

’’جب امام (سمع الله لمن حمده) کہے تو تم (ربنا ولك الحمد) کہو۔‘‘

اس حدیث کی روشنی میں بعض علماء نے یہ کہا کہ مقتدی کو (سمع الله لمن حمده) نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اسے(ربنا ولك الحمد) کہنے کا حکم دیا گیا ہے حالانکہ اس طرح کے استدلال کے مطابق تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ امام کو (ربنا ولك الحمد) نہیں کہنا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ یہ استدلال صحیح اور صریح احادیث کے خلاف ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بحیثیت امام (ربنا ولك الحمد) کہنا بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔

(اس سلسلے کی بعض تفصیلات ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی کتاب صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (ص: 135) میں دیکھی جا سکتی ہیں۔)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:381

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ