السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وہ کون سے اوقات ہیں جن میں کسی بھی قسم کی کوئی نماز ادا کرنا جائز نہیں۔ کیا یہ بات درست ہے اگر سورج کے طلوع و غروب اور زوال کے وقت سجدہ کیا جائے تو وہ سجدہ سورج کو ہوتا ہے؟ اگر کسی آدمی کے نماز پڑھتے ہوئے ایسا وقت داخل ہو جائے تو اسے نماز روک دینی چاہئے یا جاری رکھے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
(ثلاث ساعات كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهانا أن نصلي فيهن ، أو أن نقبر فيهن موتانا : حين تطلع الشمس بازغة حتى ترتفع ، وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل الشمس ، وحين تضيف الشمس للغروب حتى تغرب)(مسلم، فضائل القرآن، الاوقات التی نھی عن الصلاة فیھا، ح: 831، ابوداؤد، الجنائز، الدفن عند طلوع الشمس وعند غروبھا، ح: 3192)
’’تین اوقات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور مردے دفن کرنے سے منع کرتے تھے، جب سورج طلوع ہو رہا ہو حتی کہ بلند ہو جائے، جب آفتاب بالکل سیدھا ہو (نہ مشرق کی طرف مائل اور نہ مغرب کی طرف) حتیٰ کہ ڈھل جائے اور جب غروب ہونے لگے حتی کہ پوری طرح غروب ہو جائے۔‘‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور حدیث میں ہے، فرماتے ہیں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إذا بدا حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى تبرز وإذا غاب حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتى تغيب)(مسلم، صلاة المسافرین، ما یتعلق بالقراءت، ح: 831)
’’جب سورج کا کنارہ نکلنا شروع ہو جائے تو نماز کو مؤخر کر دو، یہاں تک کہ نکل کر نمایاں ہو جائے اور جب سورج کا ایک کنارہ غائب ہو جائے تو نماز ملتوی کر دو حتی کہ سورج (مکمل طور پر) غروب ہو جائے۔‘‘
ایک حدیث میں اس ممانعت کا سبب بھی بیان کیا گیا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا تَحَرَّوا بصلاتكم طلوعَ الشمس ولا غُروبها؛ فإنَّها تطلع بقرْني شيطان) (ایضا)
’’نماز کو سورج کے طلوع و غروب کے اوقات میں نہ پڑھو کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے۔‘‘
آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت شیطان افق پر اپنے سینگ سورج کے سامنے کر دیتا ہے، چونکہ آتش پرست سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں تو شیطان یہ باور کرواتا ہے کہ لوگ اُسے سجدہ کرتے ہیں، اس لیے سورج کے طلوع و غروب کے وقت نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ بت پرستوں اور مشرکوں سے مشابہت نہ ہو۔
بعض لوگوں کا شیطان کے سینگوں کے بارے میں یہ اشکال کہ جس شیطان کے سینگ اتنے بڑے ہیں وہ خود کتنا بڑا ہو گا اور کہاں ٹھہرتا ہو گا حالانکہ سورج جسامت میں اتنا بڑا ہے کہ ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑا ہے۔ اس کے جواب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شیطان کو اتنا بڑا تصور کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سورج آپ کی دو انگلیوں کے درمیان بھی آ سکتا ہے اور طلوع بھی ہو سکتا ہے۔ اپنی دو انگلیاں اپنی آنکھوں سے ذرا آگے بڑھا کر اور ان میں فاصلہ دے کر سورج کی طرف دیکھیے تو سورج ان دو انگلیوں کے درمیان دکھائی دے گا۔ پس یہی صورت سورج کے شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہونے کی سمجھ لیجیے۔ (آئینہ پرویزیت، ص: 748، ط:4)
عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث میں سورج کے طلوع و غروب کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت کا سبب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سورج کے نصف النہار پر (زوال کے وقت) ہونے کے وقت نماز نہ پڑھنے کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ اس وقت جہنم دہکائی جاتی ہے (البتہ بکثرت احادیث بعضها بعضا اور آثار صحابہ کی روشنی میں جمعۃ المبارک کا دن مشتثنیٰ ہے۔) عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سوالات کیے تھے ان میں ایک سوال نماز کے بارے میں بھی تھا، جس کے جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(صَلِّ صَلاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنْ الصَّلاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ، ثُمَّ صَلِّ، فَإِنَّ الصَّلاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنْ الصَّلاةِ، فَإِنَّ حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ، فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَيْءُ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلاةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقْصِرْ عَنْ الصَّلاةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ)(مسلم، فضائل القرآن، اسلام عمرو بن عبسة، ح:832)
’’صبح کی نماز پڑھو، پھر نماز سے پرہیز کرو یہاں تک کہ آفتاب نکل کر بلند ہو جائے، اس لیے کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کافر اسے سجدہ کرتے ہیں (پھر اگر تم بھی نماز پڑھو گے تو ان سے مشابہت ہو گی)، پھر جب آفتاب بلند ہو جائے نماز پڑھو کہ اس وقت کی نماز کی فرشتے گواہی دیں گے اور فرشتے حاضر ہوں گے (یعنی مقبول ہو گی) یہاں تک کہ پھر سایہ نیزہ کا اس کے سر پر آ جائے (یعنی ٹھیک دوپہر ہو) تو پھر نماز نہ پڑھو اس لیے کہ اس وقت جہنم جھونکی جاتی ہے۔ پھر جب یہ سایہ آئے (یعنی سورج ڈھل جائے) پھر نماز پڑھو اس لیے کہ اس وقت کی نماز میں فرشتے گواہی دیں گے اور حاضر ہوں گے یہاں تک کہ تم عصر پڑھو، پھر نماز سے رُکے رہو یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو جائے، اس لیے کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے بیچ میں ڈوبتا ہے۔ اور اس وقت کافر بھی اسے سجدہ کرتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار و مشرکین سے مشابہت کی وجہ سے ہی ان اوقات میں سجدہ اور عبادت کرنے سے روکا گیا ہے ورنہ جو سجدہ اللہ تعالیٰ کو کیا جائے وہ شیطان یا سورج کے لیے کیونکر ہو سکتا ہے! اسی لیے جو شخص سورج کے طلوع یا غروب ہونے سے قبل نماز شروع کر چکا ہو اُسے نماز توڑنے کا نہیں بلکہ مکمل کرنے کا حکم ہے۔ اس کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ کریں:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ)(بخاري، مواقیت الصلاة، من ادرک من الفجر رکعة، ح: 579، مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ، من ادرک رکعة من الصلاة فقد ادرک تلک الصلاة، ح: 608۔ الفاظ صحیح بخاري کے ہیں۔)
’’جس نے فجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے پا لی اس نے فجر کی پوری نماز پا لی اور جس نے عصر کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے قبل پڑھ لی اس نے عصر کی مکمل نماز پا لی۔‘‘
یہی اصول ہر نماز کے بارے میں ہے یعنی جس نماز کی بھی ایک رکعت وقت گزرنے سے پہلے پڑھ لی جائے اور باقی نماز اگرچہ وقت گزرنے کے بعد ہی پڑھی جائے وہ ادا ہی شمار ہو گی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من ادرك ركعة من صلاة فقد ادرك الصلاة)(بخاري، مواقیت الصلاة، من ادرک من الفجر رکعة، ح:580)
’’جس نے ایک رکعت نماز پا لی اس نے پوری نماز پا لی۔‘‘
اسی طرح اگر ایک شخص جماعت کے ساتھ ایک رکعت پڑھ لیتا ہے تو اسے پوری نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اجر مل جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:
(من ادرك ركعة من صلاة مع الامام فقد ادرك الصلاة)(مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ، من ادرک رکعة من الصلاة فقد ادرک تلک الصلاۃ، ح:607)
مذکورہ بالا احادیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جب ایک شخص کسی نماز کی ایک رکعت وقت پر پڑھ لیتا ہے اور پھر ممنوع وقت داخل ہونے پر نماز توڑ دیتا ہے تو اس کی ایک رکعت ہی پوری نماز شمار ہو گی۔ مذکورہ بالا صورت حال میں ممنوعہ اوقات میں بھی نماز پڑھنا جائز ہے۔ دریں صورت کفار سے مشابہت نہیں ہو گی۔ اسی لیے نماز پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إذا أدرك أحدكم سجدة من صلاة العصر قبل أن تغرب الشمس فليتم صلاته ، وإن أدرك سجدة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فليتم صلاته)(بخاري، مواقیت الصلاة، من ادرک رکعة من العصر قبل الغروب، ح:556)
’’اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے قبل پا سکا تو پوری نماز پڑھ لے۔ اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پڑھ سکے تو پوری نماز پڑھے۔ (اوقاتِ ممنوعہ کے داخل ہونے کی وجہ سے باقی نماز ترک نہ کرے۔)‘‘
نوٹ: نمازوں کو صحیح وقت پر ادا کرنا چاہئے، اگر عذر کی وجہ سے کسی کی نماز مؤخر ہو جائے تو مذکورہ بالا رعایت اس کے لیے ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب