سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(133) کیا لیلۃ القدر میں عبادت کر لینے سے فرض نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی؟

  • 23503
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 656

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی سے میں نے کہا: آؤ نماز پڑھیں! اس نے کہا: میں نے ہزار مہینوں کی نمازیں پڑھ لی ہیں کیونکہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔ اب ہم کیوں نماز پڑھیں؟ ہماری کونسی اتنی عمر ہونی ہے! اگر ہوئی بھی تو ایک دفعہ پھر شب قدر میں عبادت کر لین گے۔ وہ ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ ہماری دو چار دفعہ لیلۃ القدر کی عبادت کئی آدمیوں کو جنت میں لے جائے گی۔ میں اسے کیا جواب دوں؟ سمجھ میں نہیں آتا!!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے دوست کا موقف غلط ہے، اسے سمجھانے اور راہ راست کی طرف لانے کی کوشش کریں کیونکہ

1۔ کسی شخص کو قطعی علم نہیں ہو سکتا کہ اس نے لیلۃ القدر کو پا لیا ہے اس لیے کہ اللہ نے اسے مخفی رکھا ہے۔

2۔ لیلۃ القدر سمیت راتوں کی عبادت نفلی ہوتی ہے۔ فرائض چھوڑنے پر باقی اعمال کالعدم قرار پاتے ہیں، فرض نماز کی ادائیگی نہ ہو تو نفلی نماز ہزاروں کیا لاکھوں مہینوں کی ہی کیوں نہ ہو اُس کی کوئی حیثیت نہیں۔

3۔ فرض چیز بعینہ اور بذاتہ مقصود ہوتی ہے۔ ورنہ فرض نہیں۔ الا یہ کہ اسلام نے کسی عذر کے پیش نظر کسی سے کسی حکم کی فرضیت خود ہی ساقط کر دی ہو۔

4۔ ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لیلۃ القدر کی قدر کرنے والے کو س قدر ثواب عنایت کیا جائے گا، اگرچہ ہزار مہینہ یا اس سے زیادہ کی عبادت بالفعل واقع نہیں ہوئی لہذا یہ اس عبادت کا بدل کیسے ہو سکتی ہے جو بالفعل مطلوب ہے۔ جیسے باجماعت نماز پڑھنے سے پچیس نمازوں کا ثواب ملتا ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کی پچیس فرض نمازیں ادا ہو گئی ہیں، اسی طرح نیکی کی ترغیب دینے والے کو بھی اسی قدر ثواب دیا جاتا ہے جتنا اس نیکی کے کرنے والے کو دیا جاتا ہے۔ بالفعل تو ایک ہی کرتا ہے۔

5۔ اپنی تمام زندگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز بھی نہیں چھوڑی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔

6۔ اللہ نے پوری زندگی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے حتی کہ انسان کی موت واقع ہو جائے۔ (الحجر: 98/15-99)

نیز تادم، موت اللہ کی فرمانبرداری کا حکم ہے۔ (آل عمران 102/3، البقرۃ: 132/2)

7۔ کئی اشخاص کو جنت میں لے جانے والی بات یہود کے عقیدے کی طرح ہے جس کی اللہ تعالیی نے البقرۃ کی آیات 80،134،141، النجم کی آیات 38 تا 40 اور دیگر کئی آیات میں تردید کی ہے۔ نیز یہ عیسائیوں کے عقیدہ کفارہ سے بھی مشابہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے ہم سب کی نجات ہو گئی ہے۔

تنبیہ: آپ کے دوست نے اسلامی احکام کا مذاق اڑایا ہے، اسلام کے کسی مسلمہ عقیدہ اور حکم کا استہزاء کفر ہے۔ اس طرح انسان کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے ہیں جس کے لیے قرآن نے ﴿حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ﴾ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (مثلا دیکھیے الکھف 103/18-106)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:357

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ