السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چند دوست ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ اذان شروع ہو گئی۔ اذان کے بعد ان میں سے کچھ لوگ نماز کے لیے اٹھے تو انہوں نے باقی دوستوں کو بھی نماز ادا کرنے کا کہا، تو انہوں نے جواب دیا، کہ اذان ہو جانے کے بعد نماز پڑھنے کی تلقین نہیں کی جا سکتی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امر بالمعروف اور نهى عن المنكر کے اصول کے مطابق نماز کی تلقین کرنا چاہئے۔ اس کی کوئی ممانعت شریعت مطہرہ میں موجود نہیں بلکہ اگر اسلامی حکومت ہو تو ان پر سختی بھی کی جا سکتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں ایک دفعہ فرمایا:
(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْتَطَبَ ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاةِ فَيُؤَذَّنَ بِهَا ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلا فَيَؤُمَّ النَّاسَ ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ)(بخاري، الاذان، وجوب صلوة الجماعة، ح: 644، مسلم، المساجد، فضل صلوٰةالجماعة، ح:651)
’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے ارادہ کیا کہ میں لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو لوگوں کی امامت کے لیے کہوں، پھر ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو نماز (جماعت) میں حاضر نہیں ہوتے۔‘‘
نماز کے وقت پر انفرادی دعوت پر استدلال ان روایات سے بھی ہو سکتا ہے جن میں یہ آتا ہے، کہ نماز کے وقت بلال رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا کرتے تھے جیسا کہ (ياتيه المؤذن للصلاة بخاري، الوتر، ماجاء فی الوتر، ح:994) کے الفاظ سے عیاں ہوتا ہے۔
البتہ بلانے کا انداز اذان سے مشابہ نہیں ہونا چاہئے۔ (جس طرح آج کل بعض جگہوں پر اذان دینے کے بعد نمازیوں کو لاؤڈ سپیکر پر آوازیں دی جاتی ہیں) کیونکہ اس سے اذان کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد سے روایت کیا ہے، کہ جب عمر رضی اللہ عنہ مکہ میں آائے، تو ابو محذورہ رضی اللہ عنہ اذان کہہ کر انہیں بلانے کے لیے آئے اور کہا:
"الصلوة يا امير المؤمنين! حى على الصلاة حى على الفلاح"
عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خرابی ہو تیری! تو دیوانہ ہے؟ کیا اذان کا بلانا کافی نہ تھا؟
(مصنف ابن ابی شیبہ 350/1، ح:3534، نوٹ: امام مجاہد کا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔ محمد ارشد کمال)
اسی سے ملتی جلتی وہ ضعیف روایت بھی ہے جو مؤطا امام مالک، الصلوۃ، ما جاء فی النداء للصلوۃ (ح:156) میں ہے کہ مؤذن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس نماز فجر کی اطلاع دینے آیا، تو انہوں نے دیکھا کہ وہ نیند کر رہے ہیں، تو مؤذن نے کہا:
"الصلٰوة خير من النوم"
اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسے صبح کی اذان میں کہے۔
مطلب یہ ہے کہ ان کلمات کو اِن کے اصل موقع و محل پر کہا جائے نہ کہ سوئے ہوئے آدمی کے پاس جا کر اسے جگانے کے لیے یہ کلمات کہے جائیں۔ الصلٰوة خير من النوم اذان میں دوبار پڑھنے کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، جس موقع پر انہیں پڑھنے کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی انہیں اسی موقع پر پڑھنا چاہئے۔ غالبا عمر رضی اللہ عنہ کی یہی منشاء تھی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب