السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مساجد کو سیاسی، انتظامی اور فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مساجد صرف نماز کی ادائیگی کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کے طرزِ زندگی میں مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور زندگی کے جملہ پہلوؤں کے ساتھ اس کا گہرا رابطہ ہے۔مسجد ہی مرکزِ ملت ہے۔ غلط فہمیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب سیاست کو دین سے الگ سمجھا جانے لگے۔ یعنی سیاسی اُمور میں دین و شریعت سے راہنمائی نہ لی جائے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیاست کا فریضہ تو انبیاء علیہم السلام ادا کرتے رہے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگار کے بقول:
The Religion and politics could not be separated. Same individual was ruler and chief administrator in the two fields, and the same building, the Mosque was the centre of gravity for both, politics and religion.
’’دین کو سیاست سے جدا نہیں کیا جا سکتا، دونوں شعبوں میں ایک ہی فرد حکمران اور ناظم اعلیٰ ہوتا، ایک ہی عمارت مسجد سیاست اور مذہب کی ضروریات کا مرکز ہوتی۔‘‘
علامہ اقبال کہتے ہیں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیاسی گفتگو اور معاہدات مساجد میں کرتے، نیز کسی اہم سیاسی امر کی طرف توجہ دلانا ہوتی تو بھی مسجد ہی میں خطبہ دیتے۔ خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیعت لینے کے بعد پہلا خطبہ مسجد ہی میں دیا تھا۔ ان کے بعد کے حکمران بھی اسی نہج پر چلتے رہے۔ ان کے یہ خطبے ان کے سیاسی طرزِ عمل کے آئینہ دار ہوتے تھے۔ لہذا وہ حکمران طبقہ ہوش کے ناخن لے جو بڑھکیں مارتا ہے کہ مساجد کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی! وہ جانتے ہیں کہ ان کے سیکولر ازم کے خلاف آواز مساجد ہی سے اٹھتی ہے اور انہیں ایسے ’’علماء و مشائخ‘‘ درکار ہیں جنہوں نے مساجد کا منہ بھی نہ دیکھا ہو، تاکہ ان کی "اتاترکی" کی حمایت کے لیے ہاں میں ہاں ملانے والا کوئی تو ہو!
حکمران ’’مفتیان‘‘ کو تو کم از کم علم ہونا چاہئے کہ ہمارے ہادی و مرشد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تقسیم غنائم اور وفود سے سرکاری ملاقاتیں مسجد میں ہی ہوتی تھیں اور سفراء کو مسجد ہی میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ غزوات و سرایا اور مہم جوئی کے لیے چندہ یہیں اکٹھا کیا جاتا تھا (کہ جسے معین الدین حیدر ’’بھتہ‘‘ وصول کرنا کہتے ہیں۔) مسلمانوں کے عہدِ زریں میں یہی حیثیت برقرار رہی۔ خلفائے راشدین مسجد ہی سے عساکر (فوجی دستے) روانہ کرتے تھے اور یہیں پر عسکری مجالس کا انعقاد ہوتا تھا۔ گویا مسجد پارلیمنٹ ہاؤس اور جنرل ہیڈکوارٹر (G.H.Q) کے طور پر بھی مستعمل تھی۔ لہذا وزیرِ داخلہ دینی اُمور میں دخل اندازی سے گریز کریں اور اپنی بھڑک "مسجد کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی" پر نظرثانی کریں۔
عہدِ نبوی میں مسجد معسکر (Military Training Center) کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا اور حبشی مسجد میں کھیل رہے تھے۔ (اسلحہ کی مشق کر رہے تھے۔)
(بخاري، الصلوٰة، اصحاب الحراب فی المسجد، ح: 454)
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
(والحبشة يلعبون بحرابهم) (ایضا، ح:455)
’’اور حبشی اپنے ہتھیاروں سے کھیل رہے تھے۔‘‘
(نوٹ: ایک 'شیخ الاسلام' حبشیوں کے اس کھیل سے رقص کی دلیل لیتے ہیں! حالانکہ وہ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ جہادی اور عسکری تربیت کی مشق کر رہے تھے۔ یہ غلط استدلال کرنے والے اگر کسی اور کی نہیں مانتے تو کم از کم سید علی ہجویری کی ہی بات مان لیں جنہوں نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں رقص (Dance) کو حرام قرار دیا ہے۔)
اسلحے کو سترے کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يركز له الحربة فيصلى اليها(بخاري، الصلاة، الصلاة الی الحربة، ح: 498)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے برچھا گاڑا جاتا آپ اس کی طرف نماز پڑھتے۔‘‘
مسجد نبوی میں بعض قیدیوں کو بھی باندھا جاتا تھا۔
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سوار نجد کی طرف بھیجے وہ بنی خلیفہ کے ایک شخص کو پکڑ کر لائے جس کا نام ثُمامہ بن اُثال تھا۔ اسے لا کر مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔‘‘(بخاري، الصلاة، دخول المشرک المسجد، ح: 469)
تنازعات اور مقدمات کے فیصلہ جات بھی مسجد میں کر دیے جاتے۔ بعض احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں۔
(دیکھیے بخاري، الصلاۃ، التقاضی والملازمةفی المسجد، ح: 457، الخصومات، التوثق ممن تخشي معرته، ح: 2422)
بنی مخزوم کی فاطمہ نامی عورت، جس نے چوری کا ارتکاب کیا تھا، کا فیصلہ بھی مسجد میں ہی ہوا تھا۔ اس طرح مسجد کا استعمال عدالت کے طور پر بھی تھا۔ عہد نبوی میں مسجد نبوی "سپریم کورٹ" بھی تھی۔
بوقتِ ضرورت مریضوں کے خیمے بھی مسجد میں لگائے جاتے تھے۔ ان کی دیکھ بھال اور ادویات کی فراہمی وہیں پر ہو جاتی تھی۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو غزوہ خندق میں ہفت اندام کی رگ (جس کی فصد سے سر، سینہ، پشت اور پاؤں کا خون نکلتا ہے) میں زخم لگا:
فضرب النبى صلى الله عليه وسلم خيمة فى المسجد"(بخاري، الصلاة، الخیمة فی المسجد للمرضي وغیرھم، ح: 463)
’’تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا۔‘‘
اس حدیث کو شرح میں مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ذی قعدہ 4ھ میں جنگِ خندق میں ابن عرفہ نامی ایک کافر کے تیر سے زخمی ہو گئے تھے جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت کی ضرورت کے تحت ان کا خیمہ مسجد ہی میں لگوا دیا تھا۔ جنگی حالات میں ایسے اُمور پیش آ جاتے ہیں اور اِن مِلی مقاصد کے لیے مساجد تک کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب