سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(119) مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی شرعی حیثیت

  • 23489
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 6051

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی جو کہ بہت پہلے تعمیر کی گئی تھی۔ وہ اب غیر آباد تھی۔ اس میں کبھی کسی نے اذان دے دی تو دے دی ورنہ اکثر اذان تک نہیں ہوتی تھی۔ نہ نماز باجماعت ہی ہوتی تھی۔ البتہ کبھی کبھار کوئی اکا دکا آدمی نماز ادا کر لیتے تھے۔ اس مسجد کے قریب ہی ایک بڑی جامع مسجد موجود ہے۔ جو پہلے دُور تھی مگر توسیع اور تعمیرِ نو کی وجہ سے مزید اس چھوٹی مسجد کے قریب ہو گئی ہے۔ محلہ کے بہت سے نمازی وہیں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی چھوٹی مسجد غیرآباد تھی اس لیے محلہ کے بہت سے لوگوں نے اس مسجد کو غیرضروری سمجھتے ہوئے گرا دیا تاکہ غیر آباد ہونے کی وجہ سے کہیں وبال کا ذریعہ نہ بن جائے البتہ بعض لوگوں نے کہا کہ مساجد شعائراللہ ہیں ان کی تعظیم کا اور باقی رکھنے کا حکم ہے۔ مسجد کو گرانے سے اہل محلہ پر عذاب آ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے علماء کی طرف رجوع کیا تو کچھ علماء نے کہا کہ اس مسجد کو مدرسہ بنا دو۔ بعض نے کہا کہ اس کی جگہ قریب والی جامع مسجد کو دے دی جائے۔ جہاں مسجد بن گئی ہو تو کیا وہاں سے اسے کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے ختم کیا جا سکتا ہے تاکہ اسے دوسری جگہ منتقل کیا جائے؟ کیا ایک مسجد کا سامان اور جائیدار دوسری مسجد کے لیے استعمال ہو سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو اشیاء وقف ہو چکی ہوں ان کی وقف کی حیثیت ختم کرنا درست نہیں۔ البتہ انہیں کسی مصلحت کی خاطر دوسری جگہ منتقل یا وقف کی حیثیت سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایک مسجد کو دوسری جگہ منتقل بھی کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ مسجد کو غیر آباد رکھنے کی بجائے اس کا قریبی مسجد میں ضم کرنا بہتر ہے، اگر ایسا کرنا شعائر اللہ کی توہین یا بے ادبی کے لیے نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ذیل میں مفتیان کرام کے چند فتاویٰ پیش کیے جاتے ہیں:

حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ

مسجد کی منتقلی کے بارے میں محدث روپڑی لکھتے ہیں:

مسجد وقف کی قسم سے ہے اور وقف عقد لازم ہے یہ فسخ نہیں ہو سکتا۔ حدیث میں ہے:

لاَ يُبَاعُ أصْلُهَا وَلا يُوهَب ولاَ يُورَثُ(بخاري، الوصایا، الوقف و کیف یکتب، ح: 1633، مسلم، الوصیة بالوقف، 2772، ابوداؤد، ح: 2878، ترمذي، ح: 1374)

’’وقف نہ فروخت ہو سکتی ہے نہ ہبہ کی جا سکتی ہے۔ اور نہ وراثت میں لی جا سکتی ہے۔‘‘

اس بنا پر مسجد کی عمارت خواہ بالکل خراب ہو جائے وہ چٹیل میدان ہی رہے گا۔ لیکن اب دیکھنا چاہئے کہ اس سے فائدہ اٹھانے کی صورت کیا ہے؟

اگر مسجد کی صورت میں اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے تو یہ اول نمبر ہے۔

اگر وہاں مسجد بننے کی کوئی صورت نہیں مثلا وہ کسی وجہ سے مسجد کے قابل نہیں رہی یا اسے بنانے کے لیے پیسوں کا انتظام ہونا مشکل ہے اور نماز کے لیے دوسری مسجد موجود ہے یا کوئی اور وجہ ہے تو اس مسجد کو کسی اور وقف میں تبدیل کر دیا جائے جس سے دوسری مسجد کو فائدہ پہنچے مثلا یہ جگہ کرایہ پر یا ٹھیکہ پر دے دی جائے یا اس میں کھیتی کی جائے یا کوئی شخص اپنے پیسوں سے یہاں دکان یا مکان بنائے اور اس کے کرایہ سے اپنا قرض پورا کر کے اسے چھوڑ دے یا کرایہ ادا کرتا رہے۔

اگر وقف رہنے کی صورت میں دوسری مسجد کو فائدہ نہیں تو پھر فروخت کر کے اس کی قیمت دوسری مسجد پر خرچ کر دی جائے۔ اگر دوسری مسجد پر ضرورت نہ ہو تو درس و تدریس یا کسی اور نیک مصرف میں لگا دی جائے ہر صورت جو شے خدا کی ہو چکی حتی الوسع کسی نہ کسی طرح اسے اسی راہ میں صرف کرنا چاہئے۔ ضائع نہ ہونے دے۔ اگر کوئی اور صورت نہ ہو تو قبرستان ہی سہی۔ کیونکہ یہ بھی مسلمانوں کے عام فائدہ کی شے ہے، ہاں اگر معاملہ طاقت سے باہر ہو جائے تو جدھر جاتی ہے جانے دے۔ منتقى باب ما يصنع بفاضل مال الكعبة میں ہے:

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے:

«لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ» او قال « بِكُفْرٍ ، لَأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالْأَرْضِ ، وَلَأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ » (مسلم، الحج، نقض الکعبة و بنائھا، ح: 1333)

’’اگر تیری قوم کفر (جاہلیت) کے ساتھ نئے زمانے والی نہ ہوتی تو میں بیت اللہ کا خزانہ نکال کر اللہ کی راہ میں تقسیم کر دیتا اور بیت اللہ کا دروازہ زمین کے ساتھ ملا دیتا اور حجر کا کچھ حصہ بیت اللہ میں داخل کر دیتا۔‘‘

بیت اللہ کے خزانہ سے مراد وہ مال ہے جو لوگ بیت اللہ کی خاطر نذر دیا کرتے تھے جیسے مساجد میں لوگ دیتے ہیں۔ یہ خزانہ بیت اللہ میں اسی طرح دفن ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ یہ بیت اللہ کی حاجت سے زائد بے کار ہے تو خیال ہوا کہ اسے فی سبیل اللہ تقسیم کر دیا جائے لیکن کفار چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے خطرہ تھا کہ کہیں وہ بدظن نہ ہو جائیں اس لیے چھوڑ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب وقف کی حالت ایسی ہو جائے کہ ضائع جاتی نظر آئے تو اس کی کوئی ایسی صورت بنانی چاہئے جس سے وہ ضائع نہ ہو۔ کشف القناع عن متن الاقناع جلد 2 ص 471 میں ہے:

"واحتج الامام بان مسعود رضى الله عنه قد حول المسجد الجامع من التمارين اى بالكوفة"

’’اور امام احمد نے وقف کی تبدیلی پر اس بات سے ستدلال کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جامع مسجد کھجوروں کے تاجروں سے بدل دی۔‘‘

یعنی بدل کر کوفہ میں دوسری جگہ لے گئے۔

اور عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شارع عام تنگ ہو گیا تو انہوں نے مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں ڈال دیا۔ (ملاحظہ ہو فتاویٰ ابن تیمیہ جلد 3 ص 288)

غرض اس قسم کے تصرفات اوقاف اور خیرات میں درست ہیں جن سے وہ ضائع نہ ہو بلکہ بڑھے یا محفوظ ہو جائے۔ بلکہ حنفیہ کا بھی آخری فتویٰ اسی پر ہے، چنانچہ درالمختار جلد 3 ص 407 میں اس کی تصریح کی گئی ہے اور امام محمد نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر وقف بیکار ہو جائے تو اس کی اصل مالک یا وارثوں کی ملک میں ہو جائے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ وقف کی غرض پر مدار ہے۔ حتی الواسع سے ضائع نہ ہونے سے ورنہ حوالہ خدا۔ (عبداللہ امرتسری روپڑی، 9 دسمبر 1938ء)

شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کا فتوی

آپ سے سوال کیا گیا کہ مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل کرنا یا مسجد کے سامان کو قیمتا خریدنا کیسا ہے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا: درست ہے بشرطیکہ مسجد کی آبادی مقصود ہو، بربادی مقصود نہ ہو۔ اسی طرح آپ سے سوال ہوا کہ مسجد کے لیے خریدی گئی جگہ بیچ کر کوئی اور جگہ خریدی جا سکتی ہے۔ تو آپ نے جواب میں لکھا کہ درست ہے بشرطیکہ مسجد کی آبادی مقصود ہو:

﴿إِنَّما يَعمُرُ مَسـٰجِدَ اللَّهِ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ...﴿١٨﴾... سورة التوبة

’’اللہ کی مسجدوں کی آبادی انہی لوگوں سے ہوتی ہے جو اللہ پر ایمان لائے۔‘‘

﴿وَمَن أَظلَمُ مِمَّن مَنَعَ مَسـٰجِدَ اللَّهِ أَن يُذكَرَ فيهَا اسمُهُ وَسَعىٰ فى خَرابِها...﴿١١٤﴾... سورة البقرة

’’اور کون ہے بہت ظالم اس شخص سے کہ منع کرتا ہے مسجدوں اللہ کی سے یہ کہ ذکر کیا جائے بیچ ان کے نام اس کا اور کوشش کرتا ہے بیچ خراب کرنے ان کے۔‘‘(احکام و مسائل 104/1)

شیخ الحدیث مفتی حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ کا فتوی

ان سے سوال کیا گیا کہ سڑک کے کنارے بنی ہوئی مسجد کو کسی دوسری جگہ منتقل کر کے پہلی جگہ پر دکان تعمیر کرنا شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟ تو آپ نے جواب میں لکھا: مساجد کو بلاوجہ دوسری جگہ منتقل نہیں کرنا چاہئے ہاں اگر پہلی مسجد بے آباد ہو جائے یا اس سے وہ مقاصد پورے نہ ہو رہے ہوں جو تعمیر کے پیش نظر ہوتے ہیں تو ایسے حالات میں ایک مسجد کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے، اس صورت میں پہلی مسجد کا سازوسامان دوسری مسجد میں استعمال کیا جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی ایک پرانی مسجد کو دوسری جگہ منتقل کر دیا تھا اور پہلی مسجد کی جگہ کھجوروں کی منڈی بنا دی تھی۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتویٰ میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ (265/31)

سڑک کے کنارے بنی ہوئی مسجد کو اگر کسی دکان وغیرہ کی صورت میں تبدیل کرنا ہو تو اس کا کرایہ یا آمدن دوسری مسجد پر صرف ہونی چاہئے۔ (فتاویٰ اصحاب الحدیث)

لہذا ایک مسجد کو دوسری میں کسی مصلحت کی وجہ سے ضم کرنا درست ہے یا اس کی وقف کی حیثیت کو کسی اور وقف کی حیثیت میں تبدیل کر کے اس کی آمدن دوسری جگہ پر خرچ کرنا جائز ہے۔

مسجد کو ایک جگہ سے ختم کرنے اور دوسری جگہ بنانے کی دلیل یہ روایت بھی ہے:

کوفہ میں بیت مال المسلمین کو نقب لگا کر کسی نے چوری کر لی۔ نقب لگانے والا بھی پکڑا گیا۔ اس وقت بیت المال کے نگران عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا تو انہوں نے جواب دیا:

"ان انقل المسجد وصير بيت المال فى قبلته"

’’مسجد کو یہاں سے اس طرح منتقل کر لو کہ بیت المال مسجد کے قبلہ میں آ جائے۔‘‘

سعد بن مالک نے مسجد وہاں سے ختم کر کے کھجوروں کی منڈی میں بنا دی اور منڈی کو مسجد والی جگہ منتقل کر دیا۔ بیت المال بھی مسجد کے قبلہ میں بن گیا۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ 217/31)

ایک دلیل یہ بھی ہے:

جس چیز کی نذر مانی گئی ہو، وہ بھی وقف ہو جاتی ہے، اسے تبدیل کرنا بھی فرمانِ پیغمبر سے ثابت ہے۔ مثلا ایک شخص نذر مانتا ہے کہ میں اپنے گھر کو مسجد بناؤں گا پھر وہ اس سے زیادہ اچھی جگہ پر مسجد بنوا دیتا ہے تو یہ درست ہے۔ اس کی دلیل مسند احمد اور ابوداؤد کی حدیث ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک شخص فتح مکہ کے موقع پر کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مکہ فتح کر دیا تو میں بیت المقدس جا کر نماز پڑھوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:

(صل هاهنا) ’’یہیں (مسجد نبوی میں) نماز پڑھ لے۔‘‘

اس نے پھر وہی بات کی۔ آپ نے اسے پھر یہی جواب دیا۔ اس نے بات تیسری مرتبہ پھر دہرائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(فشانك اذا) (ابوداؤد، الایمان والنذور، من نذران یصلي فی بیت المقدس، ح: 3305، مسند احمد 363/3)

’’پھر جس طرح مرضی کر۔‘‘

ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:

(والذى بعث محمدا بالحق لو صليت هاهنا لاجزأ عنك صلوة فى بيت المقدس)(ابوداؤد، الایمان والنذور، من نذران یصلی فی بیت المقدس، ح: 3306، مسند احمد 373/3)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیت المقدس کی بجائے مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کا فرمایا اور فرمایا کہ اگر یہاں پڑھے تو یہ تجھے بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل عمل کی طرف راہنمائی کر دی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

مسجد کے احکام و مسائل،صفحہ:334

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ