السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾ (الجن 72/18)) سے کیا مراد ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مشرکین نے بیت اللہ میں بت نصب کر رکھے تھے۔ مسجد حرام میں کھلم کھلا بتوں کی پوجا ہوتی اور شرکیہ اعمال کیے جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مساجد تو اللہ کی ہیں، ان میں اسی کی عبادت ہونی چاہئے، کسی غیر کی عبادت کی ہرگز اجازت نہیں۔
بیت اللہ میں بتوں کی موجودگی کا تذکرہ کئی احادیث میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے وقت بیت اللہ میں داخل ہوئے تو آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ اس کی نوک سے بتوں کو مارتے جاتے اور پڑھتے جاتے:
﴿ جاءَ الحَقُّ وَزَهَقَ البـٰطِلُ...﴿٨١﴾... سورة الإسراء
﴿قُل جاءَ الحَقُّ وَما يُبدِئُ البـٰطِلُ وَما يُعيدُ ﴿٤٩﴾... سورة سبا
(بخاري، التفسیر، تفسیر سورة بني اسراءیل، ح: 4720، مسلم، الجھاد، ازالة الاصنام من حول الکعبة، ح: 1781)
بعض مفسرین نے مذکورہ بالا آیت میں مذکور لفظ المساجد سے مراد جسم کے وہ اعضاء لیے ہیں جنہیں سجدے کے وقت زمین پر رکھا جاتا ہے یعنی پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ تمام اعضاء اللہ کے ہی دیے ہوئے ہیں، لہذا یہ قطعا جائز نہیں ہے کہ ان کے ذریعے اپنے حقیقی خالق و مالک کے علاوہ کسی اور کو بھی سجدہ کیا جائے۔
الغرض مساجد کے قیام کا مقصد اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت ہے۔ اس لیے مسجدوں میں کسی اور کی عبادت، کسی اور سے دعا و مناجات اور استغاثہ و استمداد ہرگز جائز نہیں۔ اگرچہ یہ غیر شرعی افعال مسجد سے باہر بھی جائز نہیں ہیں مگر مسجد میں، جو کہ بنائی ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے جاتی ہے، غیر اللہ کی عبادت زیادہ سنگین جرم ہے۔
مساجد میں ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ اور (التحيات لله والصلوات والطيبات) کا اقرار و اعلان کرنے والوں کو کہاں زیب دیتا ہے کہ وہ غير الله اور من دون الله کے نعرے بلند کریں۔ مخلوق سے مافوق الاسباب استمداد عقیدہ توحید اور آیت قرآنی ﴿وَأَنَّ المَسـٰجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدعوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾... سورة الجن" کے منافی ہے۔
سعودی عرب کی سب سے بڑی کمیٹی 'لجنۃ العلماء' کے رکن علامہ عبداللہ بن عبدالرحمٰن الجبرین سے اولیاء اور پیروں سے مانگنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اولیاء اور پیروں سے مانگنا اور انہیں پکارنا، نیز مصائب و شدائد پیش آنے کے وقت ان سے مدد طلب کرنا شرک اکبر ہے۔ اس لیے کہ سارے پیران و اولیاء خود مخلوق اور پرورش کیے گئے ہیں۔ (ان کا رب اللہ تعالیٰ ہے۔) یہ لوگ خود اپنے آپ کے نفع و نقصان کے مالک بھی نہیں، نہ موت و حیات ان کے اختیارمیں ہے اور نہ خود اپنی مرضی سے دوبارہ اٹھیں گے تو پھر کیسے یہ ان اشخاص کے مالک ہو سکتے ہیں جو ان سے دعا مانگتے ہیں؟ پھر انہوں نے یہی آیت پیش کی:
﴿وَأَنَّ المَسـٰجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدعوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾... سورة الجن
’’اور یہ کہ مساجد اللہ ہی کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب