السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث ہے کہ غیر مسلم کو سلام مت کرو، اگر وہ سلام کرو تو جوابا صرف وعليكم کہو۔ اہل بدعت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر وہ سلام کریں تو کیا جواب دینا چاہئے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پس منظر سمجھنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کے سلام کے جواب میں وعليكم کہنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مدینہ کے اہل کتاب پیغمبر اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی، کینہ اور حسد رکھتے تھے اور اس کا اظہار وہ مختلف طریقوں سے کرتے تھے۔ بعض اوقات ذومعنٰی الفاظ استعمال کرتے یا زبان کے معمولی ہیر پھیر سے الفاظ میں تبدیلی پیدا کر دیتے جو بادی النظر میں محسوس نہ ہوتی مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے تو وہ راعنا (ہماری رعایت کیجیے اور بات دوبارہ سمجھائیے) کی بجائے راعينا (ہمارا چرواہا) کہتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مِنَ الَّذينَ هادوا يُحَرِّفونَ الكَلِمَ عَن مَواضِعِهِ وَيَقولونَ سَمِعنا وَعَصَينا وَاسمَع غَيرَ مُسمَعٍ وَرٰعِنا لَيًّا بِأَلسِنَتِهِم وَطَعنًا فِى الدّينِ وَلَو أَنَّهُم قالوا سَمِعنا وَأَطَعنا وَاسمَع وَانظُرنا لَكانَ خَيرًا لَهُم وَأَقوَمَ ... ﴿٤٦﴾... سورة النساء
’’بعض یہود کلمات کو اُن کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔ اور سن اس کے بغیر کہ تو سنا جائے (تیری بات نہ سنی جائے) اور ہماری رعایت کر! (لیکن اس کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعن کرتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی، آپ سنیے اور ہمیں دیکھیے تو یہ ان کے لیے بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا۔‘‘(نیز دیکھیے البقرۃ: 2/104)
اسی طرح "سلام" کے الفاظ میں بھی تحریف کرتے تھے۔ جیسے کہ قرآن میں ہے:
﴿وَإِذا جاءوكَ حَيَّوكَ بِما لَم يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ...﴿٨﴾... سورة المجادلة
’’اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو اُن الفاظ میں "سلام" کرتے ہیں جن میں اللہ نے نہیں کہا۔‘‘
اس کی وضاحت احادیث میں آتی ہے کہ جب یہودی لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو " السلام عليكم " کی بجائے السام عليكم یا عليك (تم پر موت وارد ہو، تم ہلاک ہو جاؤ) کہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوابا صرف " وعليكم یا وعليك " (اور تم پر ہی ہو) کہہ دیتے۔
(بخاري، الجھاد، الدعاء علی المشرکین بالھزیمه ۔۔۔ح:2935)
تو اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑا ہی حکیمانہ جواب دیتے کہ جو تم نے کہا ہے تم پر ہی ہو۔
بدعت کا ارتکاب اگرچہ بہت بڑا گناہ اور گمراہی ہے مگر اہل بدعت کو غیر مسلم قرار نہیں دیا جاتا۔ مزید برآں بدعت کی ایجاد بھی حسن نیت پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل بدعت اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں بلکہ بدعت کو بدعت ہی نہیں سمجھتے۔ اسی لیے وہ اہل اسلام سے دشمنی یا حسد و بغض نہیں رکھتے۔ لہذا اُن سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ مسلمانوں کو السام عليكم (تم ہلاک ہو جاؤ) کہیں گے۔ اس بنیادی فرق کی وجہ سے بدعتی کو سلام کا پورا جواب دیا جائے گا نہ کہ صرف وعلیکم
البتہ سنت سے شدید محبت کرنے والے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بدعتی کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا۔ (ترمذي، ح: 2152)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب