سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(115) کیا لمبی تقریر کرنا خلاف سنت ہے؟

  • 23485
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 764

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک پروفیسر صاحب سے میں نے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مختصر خطبہ دیتے تھے۔ آپ کے خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کبھی پندرہ بیس منٹ سے زیادہ خطبہ نہیں دیا، کیا یہ درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر مختصر خطبہ ہی دیا کرتے تھے مگر حسب ضرورت طویل خطبہ بھی دیتے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

(قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقاما ما ترك شيئا يكون إلى قيام الساعة إلا حدثنا به في مقامه ذلك ، حفظه من حفظه ، ونسيه من نسيه)(مسلم، الفتن، اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یکون الی قیام الساعة، ح: 2891، بخاري، القدر، وکان امر اللہ قدرا مقدورا، ح؛ 6604)

’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر خطاب فرمایا۔ آپ نے اپنے کھڑے ہونے سے لے کر قیامت تک کی کوئی چیز نہ چھوڑی جسے آپ نے بیان نہ فرمایا ہو۔ جس نے جو کچھ یاد رکھا اسے یاد رہ گیا اور جس نے بھلا دیا اسے بھول گیا۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے، عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

(صلّى بنا رسولُ الله صلى الله عليه وسلم الفجرَ، وصَعِدَ المِنبر فخطبنا حتى حضرت الظهر، فنزل فصلّى، ثم صعد المنبر، فخطبنا حتى حضرت العصر، ثم نزل فصلّى، ثم صعد المنبر، فخطبنا حتى غَرَبَت الشمس، فأخبرنا بما كان وبما هو كائنٌ، فأعلَمُنا أحفَظُنا)(مسلم، الفتن، اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یکون الی قیام الساعة، ح: 2892)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز فجر پڑھائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو گیا، پھر آپ نیچے تشریف لے آئے، نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب کیا حتی کہ عصر کا وقت ہو گیا۔ پھر منبر سے اترے اور نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف لے گئے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا آپ نے ہمیں (قیامت اور فتنوں سے متعلق) ہر اس چیز کی خبر دی جو قیامت تک ہونے والی تھی۔ (عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) ہم میں سے زیادہ جاننے والا وہ ہے جو زیادہ حافظے والا ہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

سنت و بدعت،صفحہ:326

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ