سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(114) کیا انگوٹھے چومنے سے نظر تیز ہو جاتی ہے؟

  • 23484
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1468

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہنے کے بعد انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگانے سے نظر تیز ہوتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھناضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سن کر درود پڑھنا چاہئے۔ البتہ کسی بھی صحیح حدیث سے درود و سلام کے علاوہ کچھ ثابت نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگلیاں اور انگوٹھے وغیرہ چومنا ثابت نہیں۔ اس سلسلے کی چند روایات کی حقیقت واضح کی جاتی ہے:

ایک روایت ہے کہ جو آدمی اذان کے کلمات (اشهد ان محمدا رسول الله) سن کر کہے:

"مرحبا بحبيبى و قرة عينى محمد بن عبدالله"

پھر اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگائے، وہ کبھی آنکھ کی تکلیف میں مبتلا نہیں ہو گا۔ اس حدیث کو ماہرینِ فن نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (سلسلة الاحادیث الضعیفة: 73)

اسی روایت کو خضر علیہ السلام سے بھی روایت کیا گیا ہے کہ امام سخاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب المقاصد الحسنہ میں یون روایت کیا: خضر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جو (اشهد ان محمدا رسول الله) سن کر اپنے انگوٹھوں کو چومے اور پھر اپنی آنکھوں پر لگائے وہ کبھی آنکھیں دُکھنے کی تکلیف میں مبتلا نہیں ہو گا۔ امام سخاوی نے اس حدیث کو غیر ثابت قرار دیا ہے، اس حدیث پر وہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اس روایت کو کسی صوفی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ اس روایت کی سند کے راوی محدثین کے نزدیک مجہول ہیں، یعنی اس کی سند من گھڑت ہے اور پھر (یہ بھی قابل توجہ ہے کہ) خضر علیہ السلام سے کس نے یہ روایت سنی ہے اس کا بھی کوئی تذکرہ نہیں۔

امام سخاوی رحمہ اللہ کا یہی تبصرہ امام شیبانی نقل کرتے ہیں:

قال شيخنا ولا يصح، فى سنده مجاهيل مع انقطاعه عن الخضر وكل ما روى من هذا فلا يصح رفعه البتة(تمییز الطیب من الخبیث، ص: 189)

’’ہمارے شیخ فرماتے ہیں کہ یہ روایت صحیح نہیں، اس کی سند میں مجہول راوی ہیں، خضر پر اس کی سند منقطع ہے۔ (بلکہ خضر علیہ السلام کا عہد نبوی میں زندہ ہونا ثابت ہی نہیں، اگر وہ زندہ ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے یا کم از کم خلافت راشدہ میں ان کا کوئی تذکرہ ہوتا، راقم) اس سلسلے میں (یعنی انگوٹھے چومنے کے بارے میں) جو کچھ بھی مروی ہے اس کا مرفوع ہونا ہرگز درست نہیں۔‘‘

ایک اور روایت میں ہے جو شخص مؤذن کے (اشهد ان محمدا رسول الله) کہنے پر (اشهدا ان محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا و بالاسلام دينا و بمحمد نبيا) کہے اور شہادت کی انگلیوں کو بوسہ دے کر ان کے اندرونی حصے کو اپنی آنکھوں میں پھیرتے تو ایسا شخص میری شفاعت کا مستحق ہو گا۔ سخاوی نے اس روایت کو غیر صحیح جبکہ ملا علی قاری نے اسے موضوعاتِ کبیر میں موقوف قرار دیا ہے۔ (ص: 73)

علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگانے والی روایت کے بارے میں تیسیر المقال میں لکھتے ہیں:

(كلها موضوعات) ’’یہ سب روایات موضوع ہیں۔‘‘

حسن بن علی نے بھی تعلیقات مشکوٰۃ میں ان روایات کو غیر صحیح قرار دیا ہے۔

لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں ثابت ہے، اسی پر اکتفا کیا جائے اور اس میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ نہ کیا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سن کر درود پڑھنے پر ہی اکتفا کرنا چاہئے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

سنت و بدعت،صفحہ:324

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ