سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(108) مسلمان کو منحوس کہنے کی شرعی حیثیت؟

  • 23478
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1913

سوال

(108) مسلمان کو منحوس کہنے کی شرعی حیثیت؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ایک بزرگ ہیں وہ جب بھی گھر جاتے ہیں تو ان کی بیوی انہیں منحوس کہہ کر پکارتی ہے۔ کیا شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ کسی مسلمان کو منحوس کہہ کر پکارا جائے؟ اگر نہیں تو ہماری اس سلسلے میں راہنمائی کریں تاکہ اس بڑھیا کو راہِ رست پر لایا جائے۔ نیز یہ بھی بتا دیجیے کہ اگر کوئی چیز ناپسند ہو تو وہ کیا کہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ بڑھیا کا یہ طرز عمل بد اخلاقی، انتہائی نامناسب اور غلط ہے۔ خاوند، جو کہ بیوی کا قوام (سرپرست) ہوتا ہے، احترام کا مستحق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لو كنت امرا ان يسجد لاحد لامرت النساء ان يسجدن لازواجهن لما جعل الله لهم عليهن من حق)(ابوداؤد، النکاح، فی حق الزوج علی امراة، ح: 2140)

’’اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کیونکہ خاوندوں کا بیویوں پر اللہ نے بڑا حق مقرر کیا ہے۔‘‘

نیز اکثر عورتوں کے جہنمی ہونے کا سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا:

(يكفرن العشير، ويكفرن الإحسان)(مسلم، الکسوف، ما عرض علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلاۃ الکسوف ۔۔، ح: 907)

’’خاوندوں کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں۔‘‘

دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(تكثرن اللعن و تكفرن العشير)(بخاري، الحیض، ترک الحائض الصوم، ح: 304)

’’تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔‘‘

ظاہر بات ہے کہ خاوند کو منحوس کہنا خاوند پر لعن طعن بھی ہے اور ناشکری بھی کیونکہ خاوند تو بیوی کا محسن ہوتا ہے جو ساری زندگی بیوی کو نان و نفقہ دیتا ہے اور کھلاتا پلاتا ہے۔ جس کی قدر کی جانی چاہئے نہ کہ بے قدری اور ناشکری۔

مزید برآں تطير (بدفالی اور بدشگونی) شیطانی اور شرکیہ عمل ہے جو کہ عقیدہ توحید کے سراسر خلاف ہے اور یہ بدشگونی بھی پھر مسلمان، نیک اور موحد بندوں کے بارے میں۔

بذات خود کوئی چیز منحوس نہیں ہوتی، اگر فى نفسه کسی چیز میں شؤم (نحوست) ہوتی تو وہ عورت، سواری اور گھر میں ہو سکتی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو نحوست وغیرہ کا عقیدہ رکھتے ہیں جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا رد کیا جو ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے۔ اسی طرح مشرکین کا پورے ہفتے میں سے بدھ کے دن کو منحوس خیال کرنا نیز ماہ شوال کو منحوس سمجھنا خصوصا نکاح وغیرہ کے معاملے میں اور بعض پرندوں الو وغیرہ کو منحوس خیال کرنا سب غلط باتیں ہیں۔

البتہ جہلاء اور برے لوگوں کا ہر دور میں وطیرہ رہا ہے کہ جب وہ مصائب و آلام، قحط سالی اور تنگ دستی وغیرہ میں مبتلا ہو جاتے تو بیہودگی پر اتر آتے اور اس کا الزام دوسرے لوگوں پر دھرتے۔ فرعون اور اس کی قوم کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرمتے ہیں:

﴿فَإِذا جاءَتهُمُ الحَسَنَةُ قالوا لَنا هـٰذِهِ وَإِن تُصِبهُم سَيِّئَةٌ يَطَّيَّروا بِموسىٰ وَمَن مَعَهُ أَلا إِنَّما طـٰئِرُهُم عِندَ اللَّهِ وَلـٰكِنَّ أَكثَرَهُم لا يَعلَمونَ ﴿١٣١﴾... سورة الاعراف

’’سو جب ان پر خوشحالی آ جاتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارے لیے ہونا ہی چاہئے اور اگر انہیں کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے۔ یاد رکھو کہ ان کی نحوست اللہ کے پاس ہے لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

یعنی اس طرح کی سوچ و فکر رکھنے والے لوگوں پر یہ مصائب و آلام اور عذاب ان کی اپنی بری حرکتوں کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں نیز ان لوگوں کو احمق اور جاہل قرار دیا گیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ایک بستی والوں کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے تین رسول مبعوث کیے مگر ان بستی والوں نے حیل و حجت کی اور آگے سے یہ جواب بھی دیا:

﴿قالوا إِنّا تَطَيَّرنا بِكُم لَئِن لَم تَنتَهوا لَنَرجُمَنَّكُم وَلَيَمَسَّنَّكُم مِنّا عَذابٌ أَليمٌ ﴿١٨ قالوا طـٰئِرُكُم مَعَكُم أَئِن ذُكِّرتُم بَل أَنتُم قَومٌ مُسرِفونَ ﴿١٩﴾... سورةيس

’’انہوں نے کہا کہ ہم تو تمہیں منحوس سمجھتے ہیں۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کر دیں گے اور تمہیں ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی۔ ان رسولوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے کیا اسے نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جائے بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو۔‘‘

سوال کا دوسرا حصہ کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی چیز کو دیکھے جو اُسے ناپسند ہو تو اس وقت کیا کہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں ہمارہ راہنمائی کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

(فاذا راى احدكم ما يكره فليقل: اللهم لا يأتي بالحسنات إلا أنت ولا يدفع السيئات إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا بك)(ابوداؤد، الطب، فی الطیرة، ح: 3919، اس کی سند میں سفیان ثوری اور حبیب بن ابو ثابت دونوں مدلس راوی عنعن سے بیان کرتے ہیں۔ محمد ارشد کمال)

’’تم میں سے کوئی شخص ناپسند چیز دیکھے تو یہ دعا کرے۔ اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائی نہیں لاتا اور تیرے سوا کوئی برائی دور نہیں کر سکتا اور تیری مدد کے بغیر ہمیں نہ بھلائی کی طاقت نہ برائی سے بچنے کی ہمت ہے۔‘‘

علامہ عبدالرحمٰن بن حسن اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

معنی یہ ہیں کہ اے اللہ! میرا یہ عقیدہ ہے کہ تطير وغیرہ سے کوئی نعمت اور بھلائی حاصل نہیں ہوتی اور نہ کوئی مشکل دور ہو سکتی ہے بلکہ تو ہی ایسا مالک اور مربی ہے جس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں، کسی کو بھلائی اور نعمت سے مالامال کرنا صرف تیرا ہی کام ہے اور مشکلات کو دور کرنا بھی تیرے ہی اختیار میں ہے۔

ان دعائیہ جملوں میں الحسنات سے نعمت اور السيئات سے مصائب و مشکلات مراد ہیں، جیسے قرآن کریم میں ہے:

﴿وَإِن تُصِبهُم حَسَنَةٌ يَقولوا هـٰذِهِ مِن عِندِ اللَّهِ وَإِن تُصِبهُم سَيِّئَةٌ يَقولوا هـٰذِهِ مِن عِندِكَ قُل كُلٌّ مِن عِندِ اللَّهِ فَمالِ هـٰؤُلاءِ القَومِ لا يَكادونَ يَفقَهونَ حَديثًا ﴿٧٨ ما أَصابَكَ مِن حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَما أَصابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَفسِكَ وَأَرسَلنـٰكَ...﴿٧٩﴾... سورة النساء

’’اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اوراگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری بدولت ہے۔ آپ کہیں: سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آخر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات بھی نہیں سمجھتے۔ (انسان!) تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے۔‘‘

پیش نظر دعا میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے دل کو تمام دنیا سے قطع تعلق کر کے صرف اللہ تعالیٰ سے جوڑ لے، کیونکہ نفع و ضرر یا کسی نعمت سے مالا مال کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، دوسرے لفظوں میں اس کا اصل نام توحید ہے۔

جس شخص کے دل میں تطير وغیرہ کا کبھی احساس اور خیال پیدا ہو تو یہ دعا پڑھنا بہت ہی مناسب ہے جس سے دل کو سکون اور اطمینان حاصل ہو گا اور شیطانی وساوس ھباء منثورا (اُڑائی ہوئی گرد و غبار) ہو جائیں گے۔ اس دعا کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے یہ یقین ہوتا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی چیز میں بھلائی یا تکلیف پہنچانے کی طاقت نہیں اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ نفع و ضرر پہنچانے میں کسی کو دخل ہے تو وہ احمق اور مشرک ہے۔ (قرۃ عیون الموحدین 387/2-388)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اسلام و ایمان اور کفر،صفحہ:303

محدث فتویٰ

تبصرے