سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) فطرت کیا ہے؟

  • 23475
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 7482

سوال

(105) فطرت کیا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فطرت سے کیا مراد ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فطرت کا معنی خلقت جبلت اور ساخت ہے صاحب مصباح اللغات کے نزدیک فطرت کا معنیٰ طبیعی حالت، دین، سنت، طریقہ، پیدائش اور وہ صفت کہ ہر موجود اپنی پیدائش کے وقت جس پر ہو ہے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد ملتِ اسلام ہے۔ (اغاثة اللھفان فی مصاید الشیطان، صفحه: 169، المکتب الاسلامی بیروت)

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرت سے مراد دین اسلام ہے۔

(تفسیر القرآن العظیم، تفسیر سورة الروم، 30)

امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی فطرت سے مراد اسلام ہے۔ (فتح القدیر)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت اور تقویم پر پیدا کیا ہے اور اس میں دین اسلام کو قبول کرنے کی پوری پوری صلاحیت اور استعداد رکھ دی ہے جسے بروئے کار لا کر انسان اپنے آپ کو درست کرنے یا بگاڑنے اور دیگر اشخاص کے مفید یا مضر اثرات کو قبول یا رد کرنے کی لیاقت رکھتا ہے اور یہ ملکہ فطرتِ انسانی میں جاگزیں ہے تو گویا انسانی فطرت حیوانی فطرت کی طرح نہیں ہے کہ وہ اس سے انحراف ہی نہ کر سکے بلکہ اسے اختیار بھی دے دیا ہے، اس وجہ سے وہ بسا اوقات دنیوی جاہ و جلال اور خواہشات کی پیروی میں مگن ہو کر حق و باطل کا شعور رکھتے ہوئے بھی باطل عقائد و نظریات کا پیروکار بن جاتا ہے تو یوں وہ رفتہ رفتہ بیرونی اثرات ماحول اور والدین وغیرھم کی تربیت سے فطرت (اسلام) سے دور ہو جاتا ہے اور اپنے والدین یا ماحول کا مذہب گلے سے لگا لیتا ہے۔

ارشاد نبوی ہے:

«ما من مولود إلا يولد على الفطرة فأبواه يهودانه وينصرانه ويمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء» ثم يقول: ﴿فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ﴾(الروم 30/30))(بخاري، التفسیر، لا تبدیل لخلق اللہ، ح: 4775، مسلم، القدر، معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ، ح: 2658)

’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جس طرح ایک چوپایہ مکمل اور صحیح سلامت بچہ جنتا ہے کیا اس میں کوئی کمی محسوس کرتے ہو؟ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: اللہ کی فطرت پر (قائم رہو) جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدا کردہ (فطرت) میں کوئی تبدیلی نہ کرو، یہی سیدھا (حق) دین ہے۔‘‘

مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی دین فطرت ہے، اگر اسلام دینِ فطرت نہ ہوتا تو یہودیت، عیسائیت اور مجوسیت کے ساتھ اسلام کا بھی ذکر ہوتا۔ موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیااء علیہم السلام کا دین یہودیت، عیسائیت وغیرہ نہیں بلکہ اسلام تھا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے سورۃ الروم کی مذکورہ آیت میں خَلْقِ اللَّـهِ کا مطلب دین اللہ اور فطرت کا مطلب اسلام بیان کیا ہے۔ اور آیت کا سیاق و سباق بھی اس کا مقتضی ہے۔ زبدۃ التفسیر من فتح القدیر میں (ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ) سے لزوم الفطرة هو الدين المستقيم (فطرت کو لازم پکڑنا ہی سیدھا دین ہے) مراد لیا گیا ہے۔ حدیثِ قدسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعاالیٰ فرماتا ہے:

(خلقت عبادي حنفاء فاجتالتهم الشياطين)(مسلم، الجنة، الصفات التی یعرف بھا فی الدنیا اھل الجنة ۔۔، ح: 2865)

’’میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا مگر شیاطین نے انہیں بہکا دیا۔‘‘

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ توحید اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری انسانی فطرت کی آواز ہے، شیاطین کے بہکاوے میں آ کر انسان اپنی فطرت سے رُوگردانی کرتا ہے، غیراللہ کو پکارتا ہے لیکن جب مشکلات کے بھنور میں پھنس جاتا ہے تو سب کو چھوڑ چھاڑ کر کائنات کے رب کے دروازے پر دستک دیتا ہے، قرآن کہتا ہے:

﴿قُل أَرَءَيتَكُم إِن أَتىٰكُم عَذابُ اللَّهِ أَو أَتَتكُمُ السّاعَةُ أَغَيرَ اللَّهِ تَدعونَ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿٤٠ بَل إِيّاهُ تَدعونَ فَيَكشِفُ ما تَدعونَ إِلَيهِ إِن شاءَ وَتَنسَونَ ما تُشرِكونَ ﴿٤١ ... سورة الانعام

نیز دیکھیے آیات 63،64، یونس 10/22،23))

’’آپ کہیے کہ اپنا حال تو بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آ پڑے یا تم پر قیامت ہی آ پہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے اگر تم سچے ہو بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس مصیبت کے لیے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اسے دور کر دے، اس وقت تم جنہیں شریک ٹھہراتے ہو، اُن سب کو بھول بھال جاتے ہو۔‘‘

کاش کہ انسان صدائے فطرت پر کاربند رہے اور ان تمام امور سے اجتناب کرے جو انسانی فطرت کو مسخ کر کے رکھ دیتے ہیں اسی میں اخروی نجات کا راز پنہاں ہے۔

بخاری میں بہت سی ایسی روایات بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر توحید اور دیگر ایمانیات کا اقراری ہونے کی صورت میں وفات پا جاتا ہے تو اس کی موت فطرت پر واقع ہوتی ہے۔

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب آپ اپنے سونے کی جگہ (بستر) پر آئیں تو نماز کا سا وضو کر لیں، پھر دائیں کروٹ پر لیٹیں اور یوں دعا کریں:

(اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إليْكَ ، وَوجَّهْتُ وَجْهي إلَيْكَ ، وفَوَّضْتُ أَمْرِي إلَيْكَ ، وَأَلجَأْتُ ظهْري إلَيْكَ ، رَغْبةً وَرهْبَةً إلَيْكَ ، لا مَلْجأ ولا مَنْجى مِنْكَ إلاَّ إلَيْكَ ، آمَنْتُ بِكتَابكَ الذي أَنْزلتَ ، وَنَبيِّكَ الذي أَرْسَلْتَ)

’’اللہ! آپ کے ثواب کی امید میں اور آپ کے عذاب کے ڈر سے میں نے اپنے آپ کو آپ کے سپرد کیا اور اپنا کام آپ کو سونپ دیا اور اپنی پشت کو آپ کے حوالے کر دیا، آپ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور ٹھکانا نہیں مگر آپ کے ہی پاس۔ یا اللہ! میں آپ کی کتاب (قرآن) پر ایمان لایا جسے آپ نے اتارا اور آپ کے نبی پر جسے آپ نے بھیجا۔‘‘

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اگر آپ اسی رات فوت ہو جائیں تو فطرت (اسلام) پر ہوں گے جبکہ یہ دعا آپ کا (سوتے وقت) آخری کلام ہو۔‘‘

(بخاري، الوضوء، فضل من بات علی الوضوء، ح: 247)

(بخاري، الدعوات، اذا بات طاھرا، ح: 6311، اور مایقول اذا نام، ح: 6313 میں (فإن مت مت على الفطرة) (اگر آپ کی موت واقع ہوئی تو فطرت پر ہو گی) کے الفاظ ہیں جبکہ باب النوم علی الشق الایمن، ح: 6315 میں یہ الفاظ ہیں:

(من قالهن ثم مات تحت ليلته مات على الفطرة)

’’جس نے یہ کلمات کہے اور اگر اسی رات مر گیا تو فطرت پر فوت ہوا۔‘‘

مزید برآں فطرت کی طرف راہنمائی کرنا یہ بھی اللہ کی طرف سے بندے پر بہت بڑا فضل ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اسراء کی رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو پیالے شراب اور دودھ کے لائے گئے تو آپ نے دودھ لے لیا، اس پر جبریل علیہ السلام نے کہا:

(الحمد لله الذي هداك للفطرة، لو أخذت الخمر غوت أمتك)(بخاري، التفسیر، تفسیر سورة بنی اسراءیل، ح: 4709)

’’اس اللہ کی سب تعریف ہے جس نے آپ کو فطرت کی طرف راہنمائی کی، اگر آپ شراب لے لیتے تو آپ کی امت بہک جاتی۔‘‘

کیونکہ شراب عقل کو ضائع کر دیتی ہے لہذا فطرت کے منافی ہوئی، شاید یہی وجہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی بہت سے لوگ شراب سے متنفر تھے۔

فطرت پر پیدا ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان کو کسی علم و شعور اورارادی تصدیق کی چنداں ضرورت نہیں اور نہ اسے کسی راہنمائی کی حاجت ہے، اسلام کی تعلیم حاصل کیے بغیر انسان تو جاہل مطلق رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَاللَّهُ أَخرَجَكُم مِن بُطونِ أُمَّهـٰتِكُم لا تَعلَمونَ شَيـًٔا... ﴿٧٨﴾... سورة النحل

’’اللہ نے جب تم کو پیدا کیا تو تم کچھ نہ جانتے تھے۔‘‘

اور نبی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

﴿وَوَجَدَكَ ضالًّا فَهَدىٰ ﴿٧﴾... سورة الضحىٰ

ابن رجب حنبلی اس آیت کی مراد یہ تحریر کرتے ہیں:

جس کتاب و حکمت کی تعلیم آپ کو دی گئی ہے اس سے آپ ناواقف تھے۔

(جامع العلوم والحکم شرح الحدیث الرابع والعشرون)

جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿ما كُنتَ تَدرى مَا الكِتـٰبُ وَلَا الإيمـٰنُ وَلـٰكِن جَعَلنـٰهُ نورًا نَهدى بِهِ مَن نَشاءُ مِن عِبادِنا ...﴿٥٢﴾... سورة الشورىٰ

’’آپ جانتے نہ تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے لیکن ہم نے اسے نور بنایا ہے، اپنے بندوں میں سے جسے ہم چاہتے ہیں اس کے ذریعے سے ہدایت نصیب کرتے ہیں۔‘‘

مذکورہ بالا آیات سے ثابت ہوا کہ انسان اگر فطرتِ سلیم پر بھی باقی ہو تب بھی وہ وحی الہٰی کی راہنمائی حاصل ہوئے بغیر صحیح راستہ معلوم نہیں کر سکتا۔ آخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کون فطرتِ سلیم پر قائم ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی راہ پانے کے لیے وحی الہٰی کے محتاج تھے، اسی طرح ہر شخص راہ یاب ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی وحی سے راہنمائی لینے کا حاجب مند ہے۔ جس وقت یہودیت، نصرانیت، مجوسیت وغیرہ کا نام و نشان تک نہ تھا اس وقت بھی رب کائنات نے بنی نوع انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

﴿فَإِمّا يَأتِيَنَّكُم مِنّى هُدًى فَمَن تَبِعَ هُداىَ فَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٣٨﴾... سورة البقرة

’’اگر میری طرف سے تمہارے پاس راہنمائی آئے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان پر نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں۔‘‘

توحید کو تسلیم کرنے اور قبول حق کا جو مادہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے۔ اسی فطرت کو اجاگر کرنے کے لیے انبیاء و رسل آئے تو جو انسانوں میں سے سلیم الطبع تھے، انہوں نے انبیاء کے ہر فرمان کو اپنے دل کی آواز سمجھا مگر جنہوں نے مخالفت کی وہ بھی دل سے دعوت انبیاء کی حقانیت کے معترف تھے مثلا فرعون اور اس کی قول کے بارے میں آتا ہے کہ وہ نبی (موسیٰ علیہ السلام) کے معجزات کا انکار کرتے تھے لیکن دلی طور پر ان کی صداقت کا انہیں یقین تھا:

﴿وَجَحَدوا بِها وَاستَيقَنَتها أَنفُسُهُم ظُلمًا وَعُلُوًّا ... ﴿١٤﴾... سورة النمل

’’انہوں نے صرف ظلم اور تکبیر کی بنا پر انکار کر دیا حالانکہ اُن کے دل یقین کر چکے تھے۔‘‘

قرآن حکیم کو کہیں ذکر اور کہیں تذکرہ کہا گیا ہے۔

(آل عمران: 3/58، الجر: 15/6، النمل: 27/44، ص: 38/1، طٰہٰ: 20/3، عبس: 80/11)

قرآن کے 'ذکر' اور 'تذکرہ' ہونے سے بھی یہی ثابت ہوتا کہ قبولِ حق اور عقیدہ توحید کو تسلیم کرنے کی جو صلاحیت انسان میں رکھی گئی ہے اور جس کا اقرار وہ عہدِ الست میں کر چکا ہے اس کی یاد دہانی کرائی جائے۔ صراطِ مستقیم پر قائم رہنے کے لیے لازم ہے کہ انسان فطرت سے بالکل انحراف نہ کرے اور سیدھا کام وہی ہو گا جو اسلام کے مطابق ہو گا، اسلام کا جو حکم بھی ہو گا وہ فطرت کے عین مطابق ہو گا، اس کے منافی نہیں ہو سکتا۔

لفظ 'فطرت' سنت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کہ آغاز کلام میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز میں رکوع پورا نہیں کرتا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے نماز ہی نہیں پڑھی:

(لو مت مت على غير الفطرة)(بخاري، الاذان، اذا لم یتم الرکوع، ح: 791)

’’اگر تپو (اسی حالت میں) مر گیا تو فطرت پر نہیں مرے گا۔‘‘

ایک حدیث میں آتا ہے:

(خمس من الفطرة) (مسلم، الطھارة، خصال الفطرة، ح: 257)

’’پانچ کام فطرت میں سے ہیں۔‘‘

جب کہ دوسری حدیث میں مزید پانچ امور کا اضافہ کر کے دس اشیاء کا تذکرہ کیا گیا ہے:

(عشر من الفطرة) (مسلم، الطھارة، خصال الفطرة، ح: 261)

اکثر شارحین حدیث کے نزدیک مذکورہ اور اس جیسی احادیث میں فطرت سے مراد سنت ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے شرح مسلم از نووی، صفحہ 128، 129 قدیمی کتب خانہ کراچی)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اسلام و ایمان اور کفر،صفحہ:294

محدث فتویٰ

تبصرے