السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مرزا قادیانی کو سب سے پہلے کن لوگوں نے کافر قرار دیا تھا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت میں نقب زنی کی سعی ہر زمانے میں ہوئی ہے۔مگر غلامانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ساکتہ نبیوں کا دندان شکن جواب دیا ہے۔
ماضی قریب میں برصغیر میں جن لوگوں نے اسلامی عقائد کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے ان میں متنبی مرزا غلام احمد قادیانی کا نام نمایاں ہے۔ جس نے پہلے مجدد، پھر مسیح موعود اور بالآخر 1902ء میں نبوت کا دعویٰ کیا، بعد ازاں 26 مئی 1908ء کو لاہور میں آنجہانی ہوا۔
مرزا کی زندگی میں اور پس از مرگِ اُو علمائے حق اس فتنے کے استیصال کے لیے کمربستہ رہے ہیں، اس فتنے کی سرکوبی کے لیے علمائے اہل حدیث کا کردار مثالی ہے۔ بعض حنفی المسلک علماء و عمائدین نے بھی تحریک ختم نبوت میں بھرپور حصہ لیا۔ اور اس سلسلے میں قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ البتہ مرزا کی تکفیر میں اولیت علمائے اہل حدیث کو حاصل ہے۔ جس کا سہرا مولانا محمد حسین بٹالوی اور میاں نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہما کے سر ہے۔ مرزا قادیانی نے خود لکھا:
مولوی محمد حسین بٹالوی نے جب جرات کے ساتھ زبان کھول کر میرا نام دجال رکھا، اور میرے پر فتوی کفر لکھوا کر صد ہا پنجاب و ہندوستان کے مولویوں سے مجھے گالیاں دلوائیں اور مجھے یہودونصاریٰ سے بدتر قرار دیا اور میرا نام کذاب، مفسد، دجال مفتری، مکار، ٹھگ، فاسق و فاجر، خائن رکھا ۔۔ (روحانی خزائن 455/22)
فتویٰ تکفیر کے بارے میں مرزا قادیانی نے اپنی کتاب گولڑویہ (ص: 121، مطبوعہ قادیان 1914ء) میں لکھا ہے:
مولوی محمد حسین نے یہ فتویٰ لکھا اور میاں نذیر حسین دہلوی سے کہا کہ سب سے پہلے اس پر مہر لگا دے اور میرے کفر کی بابت فتویٰ دے دے اور تمام مسلمانوں میں میرا کافر ہونا شائع کر دے ۔۔ مولوی محمد حسین جو (براہینِ احمدیہ کے شائع ہونے کے۔ راقم) بارہ برس بعد اول الکافرین بنے، بانی تکفیر کے وہی تھے اور اس آگ کو اپنی شہرت کی وجہ سے سلگانے والے میاں نذیر حسین دہلوی تھے۔
مرزا قادیانی کے ’’کافروں‘‘ میں سے جن اہل حدیث علماء نے اس فتنہ کو دبانے میں گرانقدر علمی خدمات انجام دی ہیں ان میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
سید نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا محمد بشیر سہسوانی، فاتح قادیانی مولانا ثناء اللہ امرتسری، حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا احمد اللہ امرتسری، سید سلیمان سلمان منصور پوری، حافظ عبدالمنان وزیر آبادی، مولانا عبدالرحمٰن لکھوی، مولانا محمد ابوالقاسم سیف بنارسی، مولانا عبدالرحمٰن بنارسی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا عبدالحق غزنوی، مولانا عبدالجبار عمر پوری، مولانا محمد حسن دہلوی، مولانا محمد شریف گھڑیالوی، حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا عبداللہ ثانی، مولانا محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، حافظ محمد محدث گوندلوی، حافظ عبدالستار محدث دہلوی، مولانا عبدالمجید سوہدروی، مولانا نور الہٰی گرجاکھی، مولانا احمد دین گکھڑوی، مولانا محمد رفیق خاں پسروری، مولانا محمد عطاءاللہ حنیف، مولانا ابراہیم کمیر پوری اور علامہ احسان الہٰی ظہیر رحمہم اللہ اجمعین۔
یہ علمائے حق کی سعی مشکور کا ہی نتیجہ تھا کہ پاکستان میں قادیانی اور مرزائی امت کو (7 ستمبر 1974ء میں) پارلیمنٹ نے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ اولین فتویٰ تکفیر اور پارلیمنٹ کے فیصلے کو اگر یک نگاہ دیکھیں تو مذکورہ بالا علمائے کرام کی کاوشوں کا ثمرہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب