السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماری مسجد میں توہین رسالت کے موضوع پر درس قرآن کا اعلان ہوا۔ تو ایک آدمی کہنے لگا کہ آپ خوامخواہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی تشہیر کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بےادبی ہوتی ہے۔ لہذا آپ خاکوں کا تذکرہ بھی نہ کریں۔ اس سلسلے میں ہماری کتاب و سنت سے راہنمائی کریں کہ کیا ایسا کرنا واقعی بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض دفعہ نقلِ کفر کفر نہ باشد کے تحت کسی کے کفریہ کلمات اور گستاخانہ الفاظ کو نقل کرنا بطور دلیل ضروری ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کفار و مشرکین اور یہودونصاریٰ کی کفریہ اور شرکیہ باتوں کا تذکرہ کر کے ان کی تردید کی ہے۔ کفار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کے لیے أُذُنٌ کہا کرتے تھے جن کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمِنهُمُ الَّذينَ يُؤذونَ النَّبِىَّ وَيَقولونَ هُوَ أُذُنٌ قُل أُذُنُ خَيرٍ لَكُم يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤمِنُ لِلمُؤمِنينَ وَرَحمَةٌ لِلَّذينَ ءامَنوا مِنكُم وَالَّذينَ يُؤذونَ رَسولَ اللَّهِ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦١﴾... سورة التوبة
’’ان میں سے وہ بھی ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کان کا کچا ہے، آپ کہہ دیجیے کہ وہ کان تمہارے بھلے کے لیے ہے وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی طرح بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو اہل ایمان ہیں یہ ان کے لیے رحمت ہے، اللہ کے رسول کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دکھ کی مار ہے۔‘‘
مشرکین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذاللہ مجنون بھی کہا کرتے تھے۔ ارشادی تعالیٰ ہے:
﴿وَيَقولونَ أَئِنّا لَتارِكوا ءالِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجنونٍ ﴿٣٦﴾ سورةالصافات
’’اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں۔‘‘
﴿ثُمَّ تَوَلَّوا عَنهُ وَقالوا مُعَلَّمٌ مَجنونٌ ﴿١٤﴾... سورة الدخان
’’پھر انہوں نے ان سے منہ پھیرا اور کہہ دیا کہ سکھایا پڑھایا ہوا مجنون ہے۔‘‘
﴿وَقالوا يـٰأَيُّهَا الَّذى نُزِّلَ عَلَيهِ الذِّكرُ إِنَّكَ لَمَجنونٌ ﴿٦﴾... سورة الحجر
’’انہوں نے کہا: اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقینا تو تو کوئی دیوانہ ہے۔‘‘
﴿وَإِن يَكادُ الَّذينَ كَفَروا لَيُزلِقونَكَ بِأَبصـٰرِهِم لَمّا سَمِعُوا الذِّكرَ وَيَقولونَ إِنَّهُ لَمَجنونٌ ﴿٥١﴾... سورة القلم
’’اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں، جب کبھی قرآن سنتے اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ن وَالقَلَمِ وَما يَسطُرونَ ﴿١﴾ ما أَنتَ بِنِعمَةِ رَبِّكَ بِمَجنونٍ ﴿٢﴾... سورة القلم
’’ن، قسم ہے قلم کی! اوراس کی جو کچھ کہ وہ (فرشتے) لکھتے ہیں۔ آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ہیں۔‘‘
﴿فَذَكِّر فَما أَنتَ بِنِعمَتِ رَبِّكَ بِكاهِنٍ وَلا مَجنونٍ ﴿٢٩﴾... سورة الطور
’’آپ سمجھاتے رہیں کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ تو کاہن ہیں نہ دیوانہ۔‘‘
﴿وَما صاحِبُكُم بِمَجنونٍ ﴿٢٢﴾... سورة التكوير
’’اور تمہارا ساتھی دیوانہ نہیں ہے۔‘‘
کفار قرآن کریم کو سحر (جادو) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر (جادوگر) کہا کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿أَكانَ لِلنّاسِ عَجَبًا أَن أَوحَينا إِلىٰ رَجُلٍ مِنهُم أَن أَنذِرِ النّاسَ وَبَشِّرِ الَّذينَ ءامَنوا أَنَّ لَهُم قَدَمَ صِدقٍ عِندَ رَبِّهِم قالَ الكـٰفِرونَ إِنَّ هـٰذا لَسـٰحِرٌ مُبينٌ ﴿٢﴾... سورة يونس
’’کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو ڈرائیے اور جو ایمان لے آئے انہیں یہ خوشخبری سنائیے کہ ان کے رب کے پاس انہیں پورا اجر و مرتبہ ملے گا۔ کافروں نے کہا: یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿وَعَجِبوا أَن جاءَهُم مُنذِرٌ مِنهُم وَقالَ الكـٰفِرونَ هـٰذا سـٰحِرٌ كَذّابٌ ﴿٤﴾... سورة ص
’’اور انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ ان ہی میں سے ایک انہیں ڈرانے والا آ گیا اور کافر کہنے لگے کہ یہ تو جدوگر اور جھوٹا ہے۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کی نیت سے یہودی "راعنا" کا لفظ بولتے تھے، اللہ نے ان کی مذمت میں فرمایا:
﴿مِنَ الَّذينَ هادوا يُحَرِّفونَ الكَلِمَ عَن مَواضِعِهِ وَيَقولونَ سَمِعنا وَعَصَينا وَاسمَع غَيرَ مُسمَعٍ وَرٰعِنا لَيًّا بِأَلسِنَتِهِم وَطَعنًا فِى الدّينِ وَلَو أَنَّهُم قالوا سَمِعنا وَأَطَعنا وَاسمَع وَانظُرنا لَكانَ خَيرًا لَهُم وَأَقوَمَ وَلـٰكِن لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفرِهِم فَلا يُؤمِنونَ إِلّا قَليلًا ﴿٤٦﴾... سورة النساء
’’بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور سنیں اس کے بغیر کہ آپ کو سنا جائے اور ہماری رعایت کریں! (لیکن اس کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں اوراگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی اور 'آپ سنیے' اور 'ہمیں دیکھیے' تو یہ ان کے لیے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا، لیکن اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے انہیں لعنت کی ہے۔ پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں۔‘‘
رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ملعون نے ایک غزوہ کے موقع پر بکواس کرتے اور ڈھینگ مارتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو الاذل (ذلیل ترین) اور خود کو الاعز (معزز ترین) کہا۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
میں اپنے چچا کے ساتھ تھا، میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو یہ کہتے سنا:
’’جو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں اور اگر اب ہم مدینہ واپس لوٹیں گے تو ان میں سے جو عزت والے ہیں ان ذلیلوں کو نکال باہر کر دیں گے۔‘‘
میں نے اس کا ذکر اپنے چچا سے کیا اور انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا۔ (منافقین سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا تو) جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کی تصدیق کر دی تو مجھے اس کا اتنا افسوس ہوا کہ پہلے کبھی کسی بات پر نہ ہوا ہو گا، میں غم سے اپنے گھر میں بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے کہا کہ تمہارا کیا ایسا خیال تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جھٹلایا اور تم پر خفا ہوئے ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:
﴿إِذا جاءَكَ المُنـٰفِقونَ...﴿١﴾... سورة المنافقون
’’جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: آپ اللہ کے رسول ہیں ۔۔‘‘
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوا کر اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ اللہ نے تمہاری تصدیق نازل کر دی ہے۔‘‘ (بخاري، التفسیر، تفسیر سورة المنافقون، ح: 4900)
اس سورت میں اللہ نے جہاں منافقین کے اور کئی راز افشا کیے وہاں یہ بھی فرمایا:
﴿يَقولونَ لَئِن رَجَعنا إِلَى المَدينَةِ لَيُخرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنهَا الأَذَلَّ وَلِلَّهِ العِزَّةُ وَلِرَسولِهِ وَلِلمُؤمِنينَ وَلـٰكِنَّ المُنـٰفِقينَ لا يَعلَمونَ ﴿٨﴾... سورة المنافقون
’’وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا۔ سنو! عزت تو صرف اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے اور ایمان داروں کے لیے ہے۔ لیکن یہ منافق جانتے نہیں۔‘‘
اپنے آپ کو معزز کہنے والے کی ایسی ذلت اور رسوائی ہوئی کہ اس کا بیٹا عبداللہ (رضی اللہ عنہ) تلوار سونت کر مدینہ کے دروازے پر کھڑا ہو گیا اور اپنے باپ کی راہ روک کر کہنے لگا: جب تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دیں آپ مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ معزز ترین تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ذلیل ترین تم ہو ۔۔ (سیرت ابن ہشام 290/2)
لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برے ناموں سے پکارتے۔ کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنی کی وجہ سے محمد (تعریف کیا گیا) نہ کہتے بلکہ مذمم (مذمت کیا گیا) نام سے پکارتے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَلا تَعْجَبُونَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ ، يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ)(بخاري، المناقب، ما جاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ح: 3533)
’’تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ قریش کی گالیوں اور لعنت ملامت کو کس طرح مجھ سے دور کرتا ہے، وہ مذمم کو برا کہتے ہیں، اس پر لعنت کرتے ہیں۔ جبکہ میں تو محمد ہوں۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی صحیح صورت حال بتانے کے لیے بعض دفعہ ان گستاخانہ الفاظ کو بیان کرتے تھے جو آپ کے لیے کہے جاتے۔ ابولہب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تبالك (تو ہلاک ہو) کے الفاظ بولے تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ اللہب نازل کی۔ تبالك کے الفاظ ابن عباس رضی اللہ عنہ لوگوں سے بیان کیا کرتے تھے۔ (بخاری، التفسیر، تفسیر سورۃ لھب، ح: 4971)
مذکورہ بالہ حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ گستاخانہ الفاظ کی تردید کے لیے ان الفاظ کو نقل کرنا بے ادبی اور گستاخی کے زمرے میں نہیں آتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب