السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا سیرۃ النبی سے کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گستاخ کو معاف کیا ہو؟ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے کوئی ایسی مثال ملتی ہو تو کیا اس کی روشنی میں ان بارہ بدبخت کارٹونسٹ افراد کو معافی دی جا سکتی ہے جنہوں نے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شاتمان اور گستاخانِ رسول کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قتل کروایا کرتے تھے البتہ چند ایسے بے ادب لوگ جو بظاہر مسلمان تھے، نمازیں اور دیگر شرعی احکام کی پابندی بھی کرتے تھے، بعض دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتی طور پر ان کے قتل سے روک دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جو لوگ اسلام قبول کر چکے تھے، یا قبول کرنا چاہتے تھے وہ یہ نہ کہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتے ہیں۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ ایسے لوگ دین سے ایسے نکل جاتے ہیں جیسے تیر کمان سے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ غزوہ حنین کا مالِ غنیمت تقسیم کر رہے تھے، اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصرہ آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! انصاف سے کام لیجیے! یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افسوس! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ اس جیسے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنی نماز کو اُن کی نماز کے مقابلے میں حقیر سمجھو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زوردار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے۔ اس تیر کا پھل اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی، پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا، اس کے نضى (تیر میں لگائی جانے والی لکڑی) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وہ تیر گزرا ہے۔‘‘
(بخاري، المناقب، علامات النبوۃ فی الاسلام، ح: 3610)
اس حدیث کی شرح میں مولانا محمد داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جس طرح ایک تیر کمان سے نکلنے کے بعد شکار کو چیرتا ہوا گزر جانے پر بھی بالکل صاف شفاف نظر آتا ہے حالانکہ اس سے شکار زخمی ہو کر خاک و خون میں تڑپ رہا ہے۔ چونکہ نہایت تیزی کے ساتھ اس نے اپنا فاصلہ طے کیا ہے اس لیے خون وغیرہ کا کوئی اثر اس کے کسی حصے پر دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح وہ لوگ بھی دین سے بہت دور ہوں گے لیکن بظاہر بے دینی کے اثرات ان میں کہیں نظر نہ آئیں گے۔ یہ مردود کارجی تھے جو علی رضی اللہ عنہ اور مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ظاہر میں اہل کوفہ کی طرح بڑے نمازی، پرہیزگار، ادنیٰ ادنیٰ بات پر مسلمانوں کو کافر بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا، علی رضی اللہ عنہ نے ان مردودوں کو مارا، ان میں ایک بھی زندہ نہ چھوڑا۔(صحیح بخاری)
ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کا ارادہ بھی ظاہر کیا:
مال غنیمت کی تقسیم پر ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
اللہ سے ڈر، اے محمد! اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر میں نافرمانی کرون گا تو پھر اللہ کی کون اطاعت کرے گا (معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کا درجہ نہیں) اور اللہ نے مجھے زمین والوں پر امانتدار مقرر کیا اور تم لوگ مجھے امانتدار نہیں سمجھتے پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چلا گیا اور لوگوں میں سے اس کے قتل کی ایک شخص نے اجازت مانگی۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن من ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد»(مسلم، الزکوٰۃ، ذکر الخوارج و صفاتھم،ح: 1064)
’’بےشک اس کی نسل میں سے ایک قوم ہے کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے اوران کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے (اہل بدعت کا یہی حال دیکھنے میں آتا ہے کہ پنجہ پرست، شبیہ پرست، تعزیہ پرست، گورو پرستوں کے یار، بے نمازیوں، ہیجڑوں، بھڑوؤں، رنڈیوں، زانیوں کے دوستدار، وفادار، فاسقوں، فاجروں، شاربان خمر، بائعان مسکرات و مغنیات کے جویان رہتے ہیں۔) اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، اگر میں انہیں پاتا تو ایسا قتل کرتا جیسے عاد قتل ہوئے ہیں۔‘‘
ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں، ایک آدمی نے کہا:
اللہ کے رسول! اللہ سے ڈریے۔ آپ نے فرمایا: افسوس تجھ پر، کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں۔ راوی نے بیان کیا: پھر وہ شخص چلا گیا۔ خالد بن ولید نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ اس پر خالد نے عرض کیا کہ بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«انى لم اومر ان انقلب الناس ولا اشق بطونهم» قال: ثم نظر اليه وهو مقضى و قال: «انه يخرج من ضئضئ هذا قوم يتلون كتاب الله رطبا لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية» واظنه قال «لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل»(بخاري، المغازی، بعث علی بن ابی طالب و خالد بن الولید رضی اللہ عنہما الی الیمن قبل حجة الوداع، ح: 4351)
’’مجھے اس کا حکم نہیں ہوا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہوا ہے کہ ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی نے کہا: پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (منافق) کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر شکار کے پار نکل جاتا ہے، اور میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا: اگر میں ان کے دور میں ہوا تو قومِ ثمود کی طرح انہیں بالکل قتل کر ڈالوں گا۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گستاخِ رسول کے قتل کا ارادہ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ظاہر کیا اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بھی، بظاہر فرق یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی اور جب وہ واپس چل دیا تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ایسے بے ادب لوگوں کے قتل کا ارادہ موقوف کیا تو اس کی علت اور سبب موجود تھا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اختیار ملا ہوا تھا کہ آپ چاہیں تو اپنے گستاخ کو سزا دیں یا معاف کر دیں (درگزر سے کام لیں) مگر گستاخِ رسول کو معاف کرنے کا اختیار کسی امتی کو حاصل نہیں ہے خواہ وہ صاحبِ اقتدار ہی کیوں نہ ہو۔
مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آئے ہیں کہ آپ نے اپنے گستاخوں کو قتل کروایا جیسا کہ کئی ایک واقعات احادیث میں مذکور ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب