سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) گستاخِ رسول کی اخروی سزا؟

  • 23470
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1098

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

توہینِ رسالت کے مرتکب کو آخرت میں کیا سزا دی جائے گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دنیا میں گستاخِ رسول کی سزا قتل ہے۔ ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اس جرم کے ارتکاب سے مسلمان کا اسلام کالعدم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَلَئِن سَأَلتَهُم لَيَقولُنَّ إِنَّما كُنّا نَخوضُ وَنَلعَبُ قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَسولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥ لا تَعتَذِروا قَد كَفَرتُم بَعدَ إيمـٰنِكُم إِن نَعفُ عَن طائِفَةٍ مِنكُم نُعَذِّب طائِفَةً بِأَنَّهُم كانوا مُجرِمينَ ﴿٦٦﴾... سورة التوبة

’’اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ کہہ دیجیے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہاری ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے ہیں؟ بہانے نہ بناؤ یقینا تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہو گئے، اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو سنگین سزا بھی دیں گے کیونکہ وہ جرم کرنے والے ہیں۔‘‘

منافقین جس ایمان کا اظہار کرتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استہزاء کرنے کی وجہ سے وہ بھی غیر معتبر ہو گیا۔ مذکورہ بالا آیت کے الفاظ ﴿قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾اس کا بین ثبوت ہیں۔ نیز ایسے لوگوں کو اللہ نے کفار کی صفوں میں کھڑا کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقولوا ر‌ٰعِنا وَقولُوا انظُرنا وَاسمَعوا وَلِلكـٰفِرينَ عَذابٌ أَليمٌ ﴿١٠٤﴾... سورة البقرة

’’ایمان والو! تم (نبی کو) ’’راعنا‘‘نہ کہا کرو، بلکہ ’’انظرنا‘‘ کہو یعنی ہماری طرف دیکھیے، اور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

کچھ یہودی راعنا اور دیگر بےادبی کے الفاظ پیغمبر کے لیے استعمال کرتے تھے، اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا؛

﴿وَلـٰكِن لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفرِهِم...﴿٤٦﴾... سورة النساء

’’اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کی ہے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے والوں کے لیے اللہ نے دردناک عذاب کا اعلان کیا ہے:

﴿وَمِنهُمُ الَّذينَ يُؤذونَ النَّبِىَّ وَيَقولونَ هُوَ أُذُنٌ قُل أُذُنُ خَيرٍ لَكُم يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤمِنُ لِلمُؤمِنينَ وَرَحمَةٌ لِلَّذينَ ءامَنوا مِنكُم وَالَّذينَ يُؤذونَ رَسولَ اللَّهِ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦١﴾... سورة التوبة

’’ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں: کان کا کچا ہے، آپ کہہ دیجیے کہ وہ کان تمہارے بھلے کے لیے ہے وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کی طرح بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو اہل ایمان ہیں یہ ان کے لیے رحمت ہے، اللہ کے رسول کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دکھ کی مار ہے۔‘‘

جو لوگ بے ادبی سے اپنی آوازوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچا کرتے ہیں، ان کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں جبکہ انہیں خبر تک نہیں ہوتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَرفَعوا أَصو‌ٰتَكُم فَوقَ صَوتِ النَّبِىِّ وَلا تَجهَروا لَهُ بِالقَولِ كَجَهرِ بَعضِكُم لِبَعضٍ أَن تَحبَطَ أَعمـٰلُكُم وَأَنتُم لا تَشعُرونَ ﴿٢﴾... سورة الحجرات

’’ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطحا کی طرف تشریف لے گئے۔ اور پہاڑی پر چڑھ کر پکارا:

"یا صباحاہ!"’’قریش اس آواز پر آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ دشمن تم پر صبح کے وقت یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری تصدیق نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور آپ کی تصدیق کریں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ ابولہب بولا: تم تباہ ہو جاؤ، کیا تم نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان نازل کیا:

﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَب﴾آخر تک۔

(بخاري، التفسیر، تفسیر سورۃ لھب، ح: 4972)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿تَبَّت يَدا أَبى لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿١ ما أَغنىٰ عَنهُ مالُهُ وَما كَسَبَ ﴿٢ سَيَصلىٰ نارًا ذاتَ لَهَبٍ ﴿٣ وَامرَأَتُهُ حَمّالَةَ الحَطَبِ ﴿٤ فى جيدِها حَبلٌ مِن مَسَدٍ ﴿٥﴾... سورة اللهب

’’ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہو گیا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔ وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا۔ اور اس کی بیوی بھی (جائے گی) جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے۔ اس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہو گی۔‘‘

ابولہب کی بیوی کے بارے میں مولانا محمد داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

یہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی دشمن تھی، مرد و فساد کرااتی پھرتی، آپ کی چغلیاں کھاتی، لوگوں میں لڑائی ڈلواتی، آخر اس کا انجام یہ ہوا کہ لکڑی کا گٹھا سر پر لادے لا رہی تھی کہ راستے میں تھک کر ایک پتھر پر بیٹھی۔ فرشتے نے آن کر وہ رسی جس سے گٹھا باندھتی تھی اور اس کی گردن میں بڑی تھی پیچھے سے زور سے کھینچی، کم بخت دم گھٹ کر مر گئی۔

امیہ بن خلف کا وطیرہ تھا کہ جب وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو لعن طعن کرتا، اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی:

﴿وَيلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ ﴿١﴾... سورة الهمزة

’’ہر لعن طعن اور برائیاں کرنے والے کے لیے تباہی ہے۔‘‘

’’بعض اوقات اللہ تعالیٰ گستاخِ رسول کی موت کو دنیا والوں کے لیے تازیانہ عبرت بنا دیتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل اور اس کے ساتھی بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی ذبح شدہ اونٹنی کی اوجھڑی اٹھا لائے اور جب محمد سجدہ میں جائیں تو لا کر ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت آدمی اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور سدیکھتا رہا، جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! اس وقت مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہونے لگے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سرنہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پشت پر سے اتار کر پھینکا، تب آپ نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا: یا اللہ! قریش کو پکڑ لے، یہ بات ان کافرو ں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ نے انہیں بددعا دی۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے ان میں سے ہر ایک کا (جُدا جُدا) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے آپ نے نام لیے تھے، میں نے ان (کی لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔‘‘

(بخاري، الوضوء، اذا القی علی ظھر المصلی قذر او جیفۃ لم تفسد علیہ صلاتہ، ح: 240)

بعض احادیث میں ہے کہ جب انہیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(وأتبع أصحاب القليب لعنة)(ایضا، الصلاۃِ المراۃ تطرح عن المصلی شیئا من الاذی، ح: 520)

’’کنویں والے اللہ کی رحمت سے دُور کر دیے گئے۔‘‘

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

’’ایک شخص پہلے عیسائی تھا، پھر وہ اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔ اس نے سورۃ البقرۃ اور آل عمران پڑھ لی تھی اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب بن گیا لیکن پھر وہ شخص مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور کہنے لگا کہ محمد کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اُسے اور کچھ بھی معلوم نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی موت واقع ہو گئی اور اس کے آدمیوں نے اسے دفن کر دیا۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر سے نکل کر زمین کے اوپر پڑی ہے۔ عیسائی لوگوں نے کہا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کا کام ہے۔ چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے انہوں نے اس کی قبر کھودی ہے اور اس کی لاش کو باہر نکال کر پھینک دیا ہے۔ چنانچہ دوسری قبر انہوں نے کھو دی جو بہت زیادہ گہری تھی۔ لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے۔ پھر انہوں نے قبر اتنی گہری کھو دی جتنی گہری اس کے بس میں تھی، اسے اس کے اندر ڈال دیا لیکن صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اب انہیں یقین ہو گیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں۔ (بلکہ یہ میت عذابِ الہٰی میں گرفتار ہے) چنانچہ انہوں نے اسے یونہی (زمین پر) ڈال دیا۔‘‘

(بخاري، المناقب، علامات النبوة فی الاسلام، ح: 3617)

یہ اس کے ارتداد کی سزا تھی اور توہین رسالت کی کہ زمین نے اس کے بدترین لاشہ کو بحم خدایا باہر پھینک دیا، آج بھی گستاخانِ رسول کو ایسی ہی سزائیں ملتی رہتی ہیں۔ لو كانوا يعملون (حاشیہ از مولانا محمد داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے کے بنانے والے عصر حاضر کے گستاخانِ پیغمبر بھی عبرت کا نشان بن جائیں گے۔ ان شاءاللہ

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

رسالت اور سیرۃ النبی ﷺ،صفحہ:276

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ