السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے کسی سے سناہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علی وسلم کے والدین کا عقیدہ درست نہیں تھا، یہ سن کر بہت تعجب ہوا ،پھر انہوں نے ایک حدیث بھی کوڈ کی کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور پوچھا: کہ میرے والد کی وفات ہو گئ ہے،اور وہ آپ پہ ایمان نہیں لایا، اس کا کیا انجام ہوگا ۔ آپ نے فرمایا: وہ دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں ہے۔ صحابی رسول صلی اللہ علی وسلم رونے لگے اور واپس جانے لگے تو آپ صلی اللہ علی وسلم نے انہیں روکا اور فرمایا: میرے والد بھی انہی گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں ہیں۔ پہلے یہ بتائیں کہ اس حدیث کی صحت کیسی ہے؟ اور کہاں سے ہے؟ اور ہے بھی کہ نہیں۔؟ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے کسی نے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علی وسلم کی والدہ کو واپس زندہ کیا گیا تا کہ وہ اپنا عقیدہ درست کر سکیں اور پھر واپس اٹھا لیا گیا۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے،راہنمائی فرما کر مشکور ہوں۔ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے سوالات سے اجتناب کرنا چاہئے،اور ایسے نازک موضوعات پر بات نہیں کرنی چاہئے،کیونکہ ان کا مطلقاً کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم میں سے کوئی شخص بھی اپنے والدین کے فسق وفجور کے حوالے سے گفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھتا ،چہ جائیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے حوالے سے بات کی جائے۔ لیکن چونکہ سوال آچکا ہے لہذا اس حوالے ادب واحترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضاحت کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے یہ ایک صحیح حدیث ہے ،جسے امام مسلم نے نقل کیا ہے۔اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔:
صحیح مسلم کی ہی ایک دوسری صحیح روایت میں سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ
جس طرح اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے مشرک والد کے لئے استغفار کی اجازت نہیں دی ،اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی والدہ کے لئے استغفار کی اجازت نہیں دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث مبارکہ اپنے معنی میں انتہائی واضح اور صریح ہیں ،جن میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ اور آپ کے والدین کو زندہ کر کے مسلمان کرنے کے حوالے سے وارد تمام روایات ضعیف اور موضوع ہیں۔شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں:
نیز یہ بات یاد رکھیں کہ کسی بھی شخص کی کسی نبی کے ساتھ رشتہ داری اس کی نجات کے لئے کافی نہیں ہے،جس طرح یہ رشتے داری سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے والد اور سیدنا نوح علیہ السلام کے بیٹے کے کسی کام نہیں آسکی ،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے مختلف افراد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل مضمون کا مطالعہ کریں۔ ماحكم والدي النبي صلي الله عليه وسلم هذا ما عندي والله اعلم بالصواب فتاویٰ علمائے حدیثجلد 09 ص |