سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(99) آزادی صحافت اور ڈنمارک کا آئین

  • 23469
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 824

سوال

(99) آزادی صحافت اور ڈنمارک کا آئین

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حالیہ توہین آمیز خاکوں کو یورپی میڈیا آزادی صحافت پر محمول کرتا ہے اور ان کے خلاف اقدام کو اظہار خیال کی آزادی کے منافی سمجھتا ہے۔ کیا یورپی ممالک کے آئین ایسی حرکات کی اجازت دیتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آزادی صحافت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسے دوسروں کی دل آزاری کا ذریعہ بنا لیا جائے اور انہیں اشتعال دلایا جائے۔ فریڈم آف پریس کے بھی کچھ ضابطے ہیں جن کی پاسداری ضروری ہے۔ ماہر صحافیوں نے بھی حالیہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزادی صحافت کا غلط استعمال قرار دیا ہے۔ APNS (آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی) کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ یہ بے بنیاد اور مجرمانہ تصویر کشی قابل مذمت ہے۔ اے پی این ایس نے اس حرکت کو آزادی صحافت اور آزادی اظہار کے ایک ناجائز استعمال کے مترادف قرار دیا، نیز یہ کہا کہ اس حق کی فطری سرحدیں اور حدود ہیں۔ اسے احساس ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنا چاہئے۔ اسے ان مقدس شخصیات کے خلاف بہتان تراشی اور اشتعال انگیزی کے لیے نقاب کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا جو دنیا بھر کی مذہبی برادری میں انتہائی عزت و احترام کے مقام پر فائز ہیں۔ (نوائے وقت 19 فروری 2006ء)

اگر ایک آدمی بش اور اوبامہ وغیرہ یا پھر اہل کتاب کی مقدس شخصیات کو ننگی اور گندی گالیاں دینے لگے تو آزادی اظہار کے ’’علمبردار‘‘ اسے جائز قرار نہیں دیں گے۔

روزنامہ نوائے وقت 19 مارچ 2006ء ایک سرخی یوں قائم کرتا ہے:

بس کی ’’شان میں گستاخی‘‘ کرنے والا گیارہویں جماعت کا طالب علم گرفتار۔

نارتھ کیرولینا (آن لائن) امریکہ کی خفیہ ایجنسی نے صدر بش کے خلاف نظم لکھنے کے الزام میں گیارہویں جماعت کے طالب علم کو گرفتار کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق حکام نے بتایا کہ نارتھ کیرولینا کے طالب علم ٹم ویلیز کو صدر بش کے خلاف گستاخانہ شعار لکھنے اور انہیں مائی سپیس نامی ویب سائٹ پر چڑھانے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ اس کا کمپیوٹر بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ اس ضمن میں گرفتار ہونے والے طالب علم ٹم ویلیز کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد کسی کو تکلیف دینا نہیں تھا مگر وہ صدر بش کی شخصیت سے کچھ زیادہ متاثر بھی نہیں ہے۔

برطانیہ کے اخبار نے ایک کارٹون اسرائیل کے یہودی وزیراعظم شیرون کے بارے میں شائع کیا۔ وہ فلسطین کے ایک بچے کا سر کھا رہا ہے اور کہتا ہے کہ کبھی تم نے ایسی مزیدار چیز نہیں چکھی ہو گی اور کون ہے وہ جو بچوں سے پیار کرنا پسند نہیں کرتا۔ 27 مارچ 2003ء کو یہ کارٹون شائع ہوا تو پوری دنیا کے یہودیوں نے اس پر واویلا کیا اور آخر برطانیہ کے اس اخبار کو معافی مانگنی پڑی اور یہ امسال 16 فروری کی بات ہے۔

امریکہ کی 6 لاشیں الجزیرہ ٹی وی پر دکھائی گئیں تو بش سمیت سارے امریکہ نے اس پر واویلا کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ بہیمت ہے۔ یہ درندگی ہے کہ تم ہماری لاشیں ٹی وی پر دکھاتے ہو۔ انہوں نے الجزیرہ پر حملہ کی دھمکی بھی دی۔

اگر یورپ اظہار رائے کا اتنا ہی احترام کرتا ہے تو یہودیوں کے قتل عام کی فرضی داستانوں پر آزادانہ مکالمے کی اجازت کیوں نہیں دیتا۔ بلکہ ان کے ہاں یہ صورت حال بھی ہے کہ ایک برٹش تاریخ دان نے یہودیوں کے قتل عام کو مفروضہ قرار دیا تو اسے تین سال قید کر دیا گیا۔ جس کے بارے میں 21 فروری 2006ء کو روزنامہ جنگ میں خبر شائع ہوئی:

’’ویانا (مانیٹرنگ سیل) آسڑیلیا کی عدالت نے یہودیوں کے خلاف مظالم کو مفروضہ قرار دینے پر برطانوی تاریخ دان کو 3 سال قید کا حکم سنایا ہے۔ ڈیوڈ ارونگ آسٹریلیا کے دارالحکومت ویانا کی عدالت میں پیش ہوئے ہیں جہاں ان پر یہودیوں کے قتل عام کو جھٹلانے کا الزام ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کے دورِ اقتدار میں یہودیوں کی نسل کشی کی گئی۔ پولینڈ کے شہر آشوئز میں بنائے گئے گیس چیمبرز میں 60 لاکھ یہودیوں کی ہلاکت کو انگریزی لفظ ہولوکاسٹ سے جانا جاتا ہے۔‘‘

یورپی اخبارات اور حکومتوں کا توہین آمیز خاکوں کو آزادی صحافت یا آزادی رائے کا مسئلہ قرار دینا بہت ہی عجیب اور بےبنیاد ہے۔ 'جنگ' کے کالم نگار جاوید چوہدری لکھتے ہیں:

’’یہ محض آزادی رائے یا آزادی صحافت کا مسئلہ ہے اور ان کے اخبارات میں ہر قسم کا مواد شائع ہوتا رہتا ہے۔‘‘

یہ موقف مکمل طور پر غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے، ڈنمارک کے اسی اخبار ’’یولاند پوسٹن‘‘ کے ایک کارٹونسٹ ’’کرسٹوفرزیلر‘‘ نے اپریل 2003ء میں (نعوذباللہ) عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں چند خاکے بنائے تھے، اس نے جب یہ خاکے اخبار کو بھجوائے تو سنڈے میگزین کے ایڈیٹر ’’جینز کیسر‘‘ نے یہ خاکے شائع کرنے سے انکار کر دیا تھا، ایڈیٹر کا کہنا تھا:

’’ان خاکوں سے قارئین کے ایک حلقہ کی دل آزاری ہو گی، وہ اس پر مشتعل بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘

یہ انکار اور یہ جواب ثابت کرتا ہے ’’یولاند پوسٹن‘‘ کی انتظامیہ اتنی سادہ اور بے وقوف نہیں، وہ عوامی رد عمل سے اچھی طرح واقف ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے ان کی آزادی کہاں سے شروع ہوتی اور کہاں پہنچ کر اس کی سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں، اگر یہ محض آزادی صحافت کا مسئلہ ہوتا تو ’’یولاند پوسٹن‘‘ عیسیٰ علیہ السلام کے خاکے بھی شائع کر دیتا، دوسرا اگر یورپ کے اخبارات اتنے ہی آزاد ہیں تو انہوں نے آج تک یہودیوں کے خلاف کوئی خبر، کوئی مضمون اور کوئی خاکہ کیوں شائع نہیں کیا؟ یورپ کے اخبار یہودیوں سے اتنے ڈرتے ہیں کہ وہاں جب بھی کسی داڑھی والے کا کارٹون یا خاکہ بنایا جاتا ہے تو اس پر مسلم لکھ دیا جاتا ہے تاکہ کوئی قاری اسے غلطی سے یہودی نہ سمجھ بیٹھے، پچھلے پچاس برسوں سے یورپ کے کسی اخبار میں یہودیوں کے قتل عام (Holo Caust) کے خلاف ایک سطر شائع نہیں ہوئی، لہذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں پر پہنچ کر یورپ کی آزادی صحافت دم کیوں توڑ دیتی ہے؟ آج تک کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا اور نہ ان لوگوں نے آج تک اس سوال کا کوئی جواب ہی دیا، میرا خیال ہے یورپ کی آزادی صحافت مسلمانوں سے شروع ہوتی ہے اور مسلمانوں پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔‘‘

ان کی حالت تو یہ ہے کہ مسلمان اگر اسلام کے شعائر پر عمل پیرا ہوں تو ان کی ’’آزادی‘‘ کو یہ بھی برداشت نہیں۔ گزشتہ ماہ اخبارات میں یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی میں حجاب والی مسلمان طالبات پر گندے انڈے پھینکے جاتے ہیں۔ (نوائے وقت 19 مارچ 2006ء)

کہاں ہے یہودونصاریٰ کی آزادی؟

Human rights (انسانی حقوق) کا ڈھنڈورا پیٹنے والے کیا نہیں جانتے کہ کسی قوم یا مذہب کا مذاق اڑانا یا توہین کرنا انسانی حقوق کی صریحا خلاف ورزی ہے۔

دنیا کے تمام ممالک کا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی شخص حکومت کے خلاف بغاوت کرے تو ایسے شخص کو تختہ دار پر لٹکایا جائے گا تو کیا یہ قوانین آزادی اظہار اور حریت فکر کے منافی نہیں؟ یہودونصاریٰ آزادی رائے کے نام پر بغاوت کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟

مزید برآں برطانیہ کے آئین کے مطابق ملکہ کی توہین جرم کیوں ہے؟ اس طرح روس میں لینن کو گالی دینا قابل تعزیر جرم ہے۔

ڈنمارک کے آئین کے سیکشن 77 کے تحت کسی بھی شخص کو غلط چیز شائع کرنے پر عدالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یورپین کنونش آف ہیومن رائٹس کے تحت بھی ڈنمارک بین الاقوامی قوانین پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ ڈینش پینل کوڈ کا سیکشن 140 بھی توہین آمیز اشاعت سے بحث کرتا ہے۔ سیکشن 266b بھی رنگ و نسل یا مذہبی جذبات کے خلاف اقدامات سے باز رکھتا ہے۔

اہل مغرب مذہب کو انسان کا پرائیوٹ (ذاتی) معاملہ سمجھتے ہیں اگر یہ درست ہے تو انہیں اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ دوسروں کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

رسالت اور سیرۃ النبی ﷺ،صفحہ:273

محدث فتویٰ

تبصرے