السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ایک مولوی صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب حالت نماز میں ہوتے تو اپنے پیچھے کھڑے نمازیوں کو اُن کی طرف چہرہ مبارک کیے بغیر دیکھ لیا کرتے تھے، کیا اس طرح کی کوئی بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟ اگر ہے تو اس کا صحیح مطلب بھی واضھ کر دیجیے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اقيموا صفوفكم فانى اراكم من وراء ظهرى»وكان احدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه»(بخاري، الاذان، الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف، ح: 725)
"صفوں کو سیدھا کیا کرو، میں تمہیں پسِ پشت بھی دیکھتا ہوں۔ (انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) ہم میں سے ہر شخص (صفوں میں) اپنا کندھا دوسرے کے کندھے اور اپنا قدم دوسرے کے قدم سے ملا دیتا تھا۔‘‘
اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کا ذکر ہے۔ معجزہ یا کرامت کی حقیقت سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات قابل غور ہیں:
1۔ انسان کا وجود، اس کی عقل، طاقت، جملہ عادات، خصائل اور خوبیاں سب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہوتی ہیں۔
2۔ انسانی عادت اور روٹین ہے کہ جس کام میں بھی کسی آدمی کی عقل اور طاقت صرف ہوتی ہے وہ کام کتنا ہی انوکھا کیوں نہ ہو دوسرے آدمی بھی محنت و مشق کر کے وہ کام کر ہی لیتے ہیں۔
3۔ لیکن جس کسی آدمی سے ایسا کام صادر ہو جو عام قانون قدرت سے ہٹا ہوا ہو اُس میں کسی علم یا فن کا عمل دخل نہ ہو اور اسباب و وسائل کو بھی استعمال میں نہ لایا گیا ہو نیز ہر خاص و عام اس کے مقابلے سے یا تو سرے سے ہی عاجز ہو یا اسباب و وسائل کے بغیر عاجز ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی سے یہ کارنامہ سرزد ہوا ہے اس میں محض اس کی عقل اور طاقت کام نہیں کر رہی بلکہ اسے کسی غیبی طاقت کی "اَن دیکھی مدد" حاصل ہے۔
4۔ اگر ایسا کام کسی نبی اور رسول سے صادر ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں اور اگر کسی صحیح العقیدہ (اور صالح) عالم دین اور متبع سنت (ولی اللہ) سے صادر ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں۔
5۔ لوگوں سے انبیاء و رسل کی صداقت منوانے کے لیے اللہ تعالیٰ انہیں عموما دو چیزوں سے نوازتے ہیں: (ا) دلیل و برھان کی طاقت۔ (ب) مختلف معجزات کا صادر ہونا۔
6۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی نبی کو معجزہ نہ ملے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسے دلیل و برھان کی طاقت سے محروم رکھا گیا ہو۔
7۔ جس نبی کو بھی معجزہ ملا اس نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اسباب و وسائل کو استعمال میں لائے بغیر ہر قسم کا کارنامہ دکھانا میری طاقت میں ہے یا میرے کارِ منصبی میں داخل ہے اور نہ ان کے صحابہ نے ہی یہ عقیدہ رکھا کہ وہ ان معجزات کی بنیاد پر اسباب عادیہ کے بغیر دوسرے انسانوں کے حاجت روا اور مشکل کشا ہیں۔
8۔ کسی بھی عام آدمی کی دعوت (عقیدہ و عمل) کی سچائی (ا) قرآن مجید (ب) مقبول احادیث (ج) صحابہ کرام کے مجموعی فہم و عمل اور (د) اجماع امت سے پرکھی جائے گی، اگر اس کی دعوت اور طرز عمل اس معیار پر پورا اُترتا ہے تو اس سے ظاہر ہونے والا خلافِ عادت کام ’’کرامت‘‘ ہو گا، ورنہ نہیں۔
9۔ اگر بدعقیدہ اور بدعمل ہونے کے باوجود اس سے امورِ عجیبہ ظاہر ہوتے ہیں تو اس کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں:
(ا)اللہ تعالیٰ نے اس کی رسی دراز کر دی ہے تاکہ وہ اور اس کے پیروکار زیادہ سے زیادہ عذابِ آخرت کے مستحق بنیں۔
(ب) اس نے مختلف شرکیہ ’’عمل‘‘ کر کے جنوں اور شیاطین کا قرب حاصل کیا ہوا ہے جو اُس کے ساتھ نظر نہ آنے والا تعاون کرتے اور اسے پیشگی خبریں پہنچاتے ہیں۔
10۔ الغرض معجزہ اور سچی کرامت اللہ تعاالیٰ کی غیبی مدد، طاقت اور حکم سے رونما ہوتی ہے جبکہ جھوٹی کرامتوں میں شیاطین کی ان دیکھی مدد کام کر رہی ہوتی ہے۔ بندہ اپنی طاقت سے ایسے امورِ عجیبہ کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔
11۔ حالت نماز میں قبلہ رخ ہونے کے باوجود پیچھے کھڑے نمازیوں پر نظر رکھنا واقعی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا، مگر یہ کیفیت ہر وقت نہیں ہوتی تھی بلکہ جب اللہ تعالیٰ چاہتا تھا ایسے ہوتا تھا۔ اور جب نہیں چاہتا تھا تو نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے (سمع الله لمن حمده) کہا تو پیچھے سے ایک آدمی نے یہ دعا پڑھی: (ربنا لك الحمد حمدا كثيرا ۔۔۔) تو سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (من المتكلم؟) ’’دعا کس نے پڑھی تھی؟‘‘(بخاري، الاذان، ح: 799)
12۔ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر سے اٹھ کر باہر چلے گئے، عائشہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے پیچھے باہر نکل گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیع غرقد (مدینہ منورہ کا قبرستان) پہنچ کر دعائے مغفرت کی اور واپس آ گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بستر پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں۔ لیکن سانس پھولی ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے ٹالنا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عائشہ بتا دیں ورنہ اللہ مجھے بتا دے گا۔‘‘
اس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ساری بات بتا دی۔
(مسلم، الجنائز، ما یقال عند دخول القبور والدعاء لاھلھا، ح: 974)
اس سے معلوم ہوا کہ گھر سے نکلتے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کو معلوم نہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کدھر اور کیوں جا رہے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہ ہوا کہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) میرے پیچھے گئی تھی۔ (نماز نبوی، ص: 126،127)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب