السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کون تھے؟ ان کی کیا خصوصیت تھی کہ جبریل علیہ السلام ان کی شکل میں آتے تھے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دحیہ بن خلیفہ بن فروہ بن فضالہ مشہور صحابی ہیں۔ مالدار تاجر تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحائف بھیجا کرتے تھے۔ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: پہلا غزوہ جس میں وہ شریک ہوئے غزوہ خندق ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ سب سے پہلے غزوہ اُحد میں شریک ہوئے تھے البتہ بدر میں شریک نہیں تھے۔ (الاصابة فی تمییز الصحابة، حرف الدال، دح: 2390)
دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے اور بھی کئی غزوات میں شرکت کی۔ غزوہ یرموک میں فوج کے ایک دستے کی کمان بھی آپ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ غزوہ خیبر میں بھی شریک تھے۔
جب غزوہ خیبر کے قیدی تقسیم کیے گئے تو صفیہ بنت حیی بن اخطب (جو کہ یہودی سردار کی بیٹی تھیں) دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئیں۔ صفیہ رضی اللہ عنہا بہت حسین و جمیل تھیں۔ (دیکھیے بخاري، المغازی، غزوۃ خیبر، ح: 4211)
مگر دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے صفیہ رضی اللہ عنہا کو حاصل کر لینے کے وقت اختلاف ہو گیا۔ لوگوں نے کہا کہ صفیہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کی سیدہ یعنی سردار کی بیٹی ہیں اور ایسی عورت بہتر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے مختص کر لیں۔ گویا ان صحابہ کے نزدیک شاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہی خیبر کی اس شہزادی کے شایانِ شان تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے خود اُن سے نکاح کر لیا۔ (رحمة للعالمین 179/2)
یوں صفیہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
5ھ میں دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو ہرقل کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پہنچانے کا کام سپرد کیا گیا، جس میں ہرقل کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ (دیکھیے مسند احمد 262/1)
اس موقع پر دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے اپنا منصب بیان کرنے کے لیے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام رساں اور ایلچی رسولُ رسولِ الله قرار دیا۔
(دیکھیے سیر اعلام النبیاء از امام ذھبی 397/2)
ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
ہمارے نزدیک دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی مرویات کی تعداد چھ تک ہے۔ (الاصابة، رقم: 2390)
آپ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت تک زندہ رہے۔ (ایضا)
دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ جبریل علیہ السلام اکثر ان کی شکل میں تشریف لاتے تھے۔ (کبھی کبھی اجنبی آدمی کی شکل میں بھی آ جایا کرتے تھے جیسا کہ مسلم، الایمان میں 'حدیث جبریل' ہے)۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كان جبريل ياتى النبى صلى الله عليه وسلم فى صورة دحية الكلبى(مسند احمد 107/2)
دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ بہت حسین و جمیل تھے۔ مدینہ میں ان کے حسن و جمال کے چرچے تھے۔ عجلی نے اپنی تاریخ میں عوانہ بن حکم سے روایت کی ہے اور کہا:
دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ اجمل الناس (لوگوں سے زیادہ حسین) تھے۔ (الاصابة، حرف:د)
ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
خوبصورتی میں دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ ضرب المثل تھے۔ (ایضا)
خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(كان جبريل ياتينى على صورة دحية الكلبى وكان دحية رجلا جميلا)
’’جبریل میرے پاس دحیہ کلبی کی صورت میں آتے ہیں اور دحیہ خوبصورت آدمی ہیں۔‘‘
(اس روایت کو طبرانی نے روایت کیا ہے۔ ایضا، نوٹ: طبرانی کبیر، ح: 758، اوسط، ح: 7۔ اس کی سند میں قتادہ مدلس اور عفیر بن معدان ضعیف راوی ہیں۔ محمد ارشد کمال)
مذکورہ بالا روایات اور حالات و واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حسن و جمال کی وجہ سے ہی جبریل علیہ السلام ان کی صورت اختیار کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے۔ طبرانی کی روایت کے الفاظ (كان جبريل ياتينى على صورة دحية الكلبى وكان دحية رجلا جميلا) بھی اس کی ایک دلیل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب