سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) سو سال کے بعد کوئی زندہ نہیں رہے گا؟

  • 23462
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3410

سوال

(92) سو سال کے بعد کوئی زندہ نہیں رہے گا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’«لا يبقى على ظهر الأرض بعد مائة سنة نفس منفوسة» کا صحیح مطلب کیا ہے؟ کیا اس حدیث سے یہ مراد لینا کہ ’’دنیا سو سال بعد ختم ہو جائے گی‘‘ درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے انسانوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ جو اِس وقت موجود ہیں ان میں سے سو سال بعد کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔ یہ حدیث معتبر کتب حدیث میں موجود ہے۔ انکارِ حدیث کی روش پر رواں دواں مصر کے ایک سکالر احمد امین نے اس حدیث کا صحیح مطلب نہ سمجھتے ہوئے اسے موضوع قرار دیا کیونکہ بقول ان کے مشاہدہ اس حدیث کے خلاف نکلا ہے۔ اس حدیث کا صحیح مطلب بیان کرتے اور احمد امین مصری کی تردید کرتے ہوئے دمشق کے علامہ ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی مرحوم لکھتے ہیں:

اس حدیث کو امام بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے۔

(بخاري، مواقیت الصلاۃ، السمر فی الفقہ والخیر بعد العشاء، ح: 601، مسلم، ح: 2537، ترمذی، ح: 2251، ابوداؤد، ح: 4348)

احمد امین نے حدیث کا یہ مطلب سمجھا ہے کہ دنیا سو سال کے بعد ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے اس نے روایت زیر تبصرہ کو موضوع ٹھہرایا ہے کہ یہ تاریخی حقائق اور حس و مشاہدہ کے خلاف ہے۔

درحقیقت مذکورہ صدر روایت طویل حدیث کا ایک جزو ہے جسے امام بخاری نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دور میں عشاء کی نماز پڑھی اور پھر کھڑے ہو کر فرمایا:

’’آج جو لوگ کائنات ارضی پر بقید حیات ہیں جب یہ صدی ختم ہو گی تو ان میں سے کوئی بھی اس وقت زندہ نہ ہو گا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی میں سے لوگوں کے ذہن میں صرف صدی کا مفہوم باقی رہ گیا۔ حالانکہ آپ نے فرمایا یہ تھا کہ ’’جو لوگ آج پشت زمین پر زندہ ہیں۔‘‘

آپ کا مقصد یہ تھا کہ اس صدی والوں میں سے اس وقت کوئی بھی زندہ نہ ہو گا۔ بلکہ سب موت سے ہمکنار ہو جائیں گے۔

یہ ہے حدیث کی اصل عبارت، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خبر آپ نے صحابہ کو اپنی زندگی کے آخری دور میں دی تھی۔ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے فرمایا:

’’جو شخص ’’آج جب کہ میں یہ الفاظ کہہ رہا ہوں‘‘ زمین کی پشت پر زندہ ہے وہ سو سال سے زیادہ عمر نہیں پائے گا۔‘‘

بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے اس حصے ’’آج جو زمین کی پشت پر زندہ ہے‘‘ کی جانب توجہ نہ دی۔ اس لیے انہوں نے ارشاد گرامی کا مطلب یہ سمجھا کہ دنیا سو سال کے بعد ختم ہو جائے گی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد سمجھایا اور آگاہ کیا کہ آپ کے ارشاد میں ’’آج کے بعد زندہ‘‘کا تذکرہ ہے۔

طبرانی کی روایت کے مطابق علی رضی اللہ عنہ نے بھی صحابہ کو سمجھایا تھا۔ (طبرانای کبیر 170/17، ح: 693، مسند احمد 93/1)

علماء کی تحقیق کے مطابق سب سے آخری صحابی ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ تھے۔ جن کی وفات 110ھ میں ہوئی۔ یعنی فرمان رسول کے پورے ایک سو سال بعد ہوئی۔ بنا بریں یہ حدیث معجزاتِ رسول میں سے ایک عظیم معجزہ پر مشتمل ہے۔ آپ نے ایک غیبی امر کی اطلاع دی اور آپ کی اطلاع کے مطابق ظہور پذیر ہوا ہے اس حدیث کا اصل معنی و مفہوم!

اب اس ضمن میں شارحین حدیث کے ارشادات ملاحظہ کیجیے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں:

’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مطلب واضح کر دیا تھا کہ جب آپ نے یہ الفاظ فرمائے اس وقت سے لے کر ایک صدی گزرنے پر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہے گا۔ اور اسی طرح ہوا بھی تھا۔ صحابہ میں سے جس کی مو ت سب کے بعد واقع ہوئی، وہ ابوطفیل عامر بن واثلہ تھے۔ اس پر تمام محدثین کا اجماع ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ ابو طفیل رضی اللہ عنہ نے 110ھ میں وفات پائی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی تو 10ھ کا واقعہ ہے۔ اس لیے 10ھ سے لے کر صدی کا اختتام 110ھ ہی پر ہوتا ہے۔‘‘

امام مسلم نے یہ حدیث متعدد طرق سے روایت کی ہے۔ ایک روایت جابر سے منقول ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں:

(ما من نفس منفوسة 'اليوم' تاتى عليها مائة سنة وهى حية يومئذ)(مسلم، فضائل الصحابة، بیان معنی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: علی راس مائة سنة  ح: 2538)

’’کوئی جاندار ’’آج‘‘ ایسا موجود نہیں کہ اس پر سو سال گزرے اور وہ اس وقت زندہ ہو۔‘‘

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’یہ حدیثیں باہم ایک دوسرے کے معنی و مفہوم پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ان میں آپ کی رسالت کی ایک عظیم علامت پائی جاتی ہے۔ ان سے مراد و مقصود یہ ہے کہ آج کی رات جو جاندار کرہ ارض پر موجود ہے۔ وہ اس کے بعد ایک سو سال سے زیادہ زندگی نہیں پائے گا۔ خواہ اس سے پہلے اس کی عمر کم ہو یا تھوڑی۔ جو آج کی رات کے بعد پیدا ہو اس حدیث میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ وہ سو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘

شارح کرمانی نے محدث ابن بطال کا قول نقل کیا ہے، فرماتے ہیں:

’’سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ ایک صدی کی مدت میں یہ نسل ختم ہو جائے گی۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ اس امت کی عمریں سابقہ امم و اقوام کی طرح طویل نہیں ہیں۔ اس لیے عبادت کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا چاہئے۔‘‘‘

صحابی ابو طفیل کی وفات کے بارے میں محدث ابن الصلاح ’’مقدمہ‘‘میں لکھتے ہیں:

’’ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ نے بالاتفاق تمام صحابہ کے آخر میں 100ھ میں وفات پائی۔‘‘(مقدمہ علوم الحدیث، ص: 15)

اسد الغابہ میں مرقوم ہے:

’’ابو طفیل رضی اللہ عنہ نے 100ھ میں اور دوسرے قول کے مطابق 110ھ میں وفات پائی۔ ان کی وفات سب صحابہ کے بعد ہوئی۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ الاصابہ میں لکھتے ہیں:

’’دوسری شرط معاصرت ہے جس کا اندازہ 110ھ کے گزر جانے سے لگایا جاتا ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ "آج جو جاندار روئے زمین پر زندہ ہیں ایک سو سال گزرنے کے بعد ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔"بخاری و مسلم نے یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ مسلم نے بروایت جابر رضی اللہ عنہ یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ نے یہ الفاظ اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے فرمائے۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے 110ھ کے بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ محدثین نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ رتن ہندی بھی صحابیت کا دعویٰ کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔‘‘(الاصابۃ 8/1)

حیرت کی بات ہے کہ جو حدیث نبوت کے ایک عظیم معجزہ پر مشتمل تھی، احمد امین کی تنقیدِ جدید کی نذر ہو کر جھوٹی اور من گھڑت قرار پائی۔

بریں عقل و دانش بباید گریست استاذ احمد امین نے اس حدیث کی تکذیب کے سلسلہ میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ بے حد عبرت ناک ہے۔ محدث ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ’’تاویل مختلف الحدیث‘‘ میں نظام اور دیگر معتزلہ کے وارد کردہ اعتراضات ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محدثین ایسی روایت کرتے ہیں جو خلاف واقع ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے مذکورہ صدر حدیث کا ذکر بھی کیا ہے۔ محدث ابن قتیبہ نے معتزلہ کے اس اعتراض کا تقریبا وہی جواب دیا ہے جو ہم قبل ازیں ذکر کر چکے ہیں۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ استاذ احمد امین کے سامنے صرف ایک ہی نصب العین ہے کہ نقدِ جدید کی آڑ لے کر کسی نہ کسی طرح محدثین کو ہدف تنقید بنایا جائے اور ان کی 'خامیوں' کو منظر عام پر لایا جائے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص حدیث نبوی پر قدماء میں سے نظام و دیگر معتزلہ اور متاخرین میں سے مستشرقین کے اعتراضات سن کر اظہار مسرت کرتا ہو اُسے محدثین کی جانب سے ابن قتیبہ کا دفاع کیسے پسند آئے گا؟

شارحین نے اس حدیث کی شرح میں جو کچھ لکھا ہے احمد امین نے مطلقا اس کی طرف توجہ مبذول نہیں کی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی تشریحات کو بھی نظرانداز کر دیا جو خود صحیح بخاری میں مذکور ہیں۔ صحیح مسلم میں منقول جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کو بھی ناقابل التفات قرار دیا۔ ان کے لیے حدیث کا صرف وہ ٹکڑا جاذب توجہ ثابت ہوا ہے جو صحیح بخاری کتاب العلم میں مذکور ہے۔

امام بخاری اس ضمن میں اس لیے معذور ہیں کہ وہ ایک ہی حدیث کے مختلف اجزاء کو متعدد ابواب میں ذکر کرنے کے عادی ہیں۔ مگر استاذ احمد امین کی اس فردگزاشت کے لیے کوئی وجہ جواز موجود نہیں کہ انہوں نے شارحین حدیث کے افکار و نظریات کو ذکر نہیں کیا۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ صحیح بخاری کتاب العلم کی حدیث کے اس جزو کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’حدیث کے اس ٹکڑے کا مطلب یہ ہے کہ آج جو لوگ پشت زمین پر بقید حیات ہیں وہ سو سال کے بعد زندہ نہیں رہیں گے۔ دوسری روایات میں یہ تفصیل موجود بھی ہے جیسا کہ شعیب کی امام زھری سے منقول روایت جو کتاب الصلوٰۃ میں آگے آ رہی ہے۔‘‘

اس کے بعد ابن حجر نے ابن بطال اور امام نووی کی وہ عبارتیں نقل کی ہیں جو ہم قبل ازیں ذکر کر چکے ہیں۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ استاذ احمد امین نے فجر الاسلام کے آخر میں جہاں اہم مصادر و مآخذ کی فہرست پیش کی ہے وہاں فتح الباری شرح بخاری، قسطلانی علی البخاری اور شرح مسلم از نووی کا نام سرفہرست لکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ امام بخاری نے یہ حدیث دو مقامات پر ذکر کی ہے۔ جہاں مختصر حدیث لکھی ہے وہاں شارحین نے مکمل روایت بیان کر دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ احمد امین نے اگر اس حدیث کی مختلف روایات اور شارحین کے اقوال کو دیکھا تھا تو اس حدیث کو جھوٹ کیوں قرار دیا؟ اور اگر وہ شارحین کے ان اقوال سے آگاہ نہیں ہیں تو ان شروح کو مراجع و مآخذ میں کیوں شمار کیا بلکہ اس سے بڑھ کر ہم یہ پوچھتے ہیں کہ شروح حدیث کو دیکھے بغیر انہوں نے اس حدیث پر گفتگو کرنے کی جسارت کیوں کی؟

(حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تشریعی مقام، ص: 348-352، ترجمہ: غلام احمد حریری)

اسی طرح کی اور بھی بہت سی صحیح احادیث ایسی ہیں جنہیں نا سمجھنے اور جہالت کی وجہ سے بعض نادان غلط قرار دیتے ہیں۔ هداهم الله تعالى

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قرآن اور تفسیر القرآن،صفحہ:247

محدث فتویٰ

تبصرے