سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) سجدہ شکر کی شرعی حیثیت؟

  • 23456
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 4316

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز پڑھنے کے بعد میں نے سجدہ شکر ادا کیا۔ ہمارے ایک دوست کہنے لگے کہ ایسا کرنا خلافِ سنت ہے۔ کیا ہمارے دوست کی بات درست ہے؟ اگر درست نہیں تو سجدہ شکر کی شرعی بنیاد کیا ہے؟ اگر سجدہ شکر کرنا ہو تو اس کا طریقہ کیا ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ سجدہ شکر کے لیے وضو ضروری ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا دل سے اعتراف قلبی شکر، زبان سے اظہر و اقرار لسانی شکر اور عمل سے اپنے شکر گزار ہونے کا ثبوت فراہم کرنا عملی شکر کہلاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام طریقوں سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔ قلبی اور لسانی شکر کے بارے میں﴿أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ﴾ (آپ کی نعمتیں جو مجھ پر ہیں میں ان کا آپ کے سامنے اعتراف کرتا ہوں) اور الحمدللہ جیسے الفاظ ماثور دعاؤں میں بکثرت ملتے ہیں۔

عملی شکر کے بارے میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی فرامین موجود ہیں۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اِس قدر قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم پڑ جاتے، دریافت کرنے پر فرمایا:

﴿أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا﴾(بخاري، التفسیر، تفسیر سورة الفتح، ح: 4836، مسلم، المنافقین، اکثار الاعمال ولاجتھاد فی العبادة، ح: 2819)

’’کیا میں (اللہ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘

(أفلا أحب أن أكون عبداً شكوراً)

’’کیا میں اس بات کو پسند نہ کروں کہ میں شکر گزار بندہ بنوں۔‘‘

اپنے آپ کو (عَبْدًا شَكُورًا) ظاہر کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی نعمت حاصل ہو، خوشخبری ملے یا کوئی مصیبت ٹل جائے تو انسان شکر کے طور پر سجدہ کرے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

(ان النبى صلى الله عليه وسلم اذا اتاه امر يسره او يسر خر ساجدا شكرا لله تبارك و تعالى)(ترمذي، السیر، ما جاء فی سجدۃ الشکر، ح: 1578، ابوداؤد، ح: 2774، ابن ماجہ، ح: 1394)

’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی خوشی حاصل ہوتی یا کوئی خوشخبری ملتی تو آپ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے۔‘‘

سیدنا علی رضی اللہ عنہا نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمذان کے داخلِ اسلام ہونے کی خبر بھیجی تو آپ سجدے میں گر پڑے، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا:

(سلام على همذان سلام على همذان)

’’ہمذان پر سلام ہو، ہمذان پر سلام ہو۔‘‘

(السنن الکبریٰ از بیہقی 721/2، سندا ضعیف ہے۔)

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، میں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا، یہاں تک کہ آپ ایک باغ میں داخل ہو گئے۔ آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ میں ڈر گیا کہ کہیں اللہ نے آپ کو فوت ہی نہ کر دیا ہو۔ میں آپ کو دیکھنے کے لیے آگے آیا تو آپ نے اپنا سر اٹھا کر فرمایا: عبدالرحمٰن کیا بات ہے؟ تو میں نے آپ کو سارے معاملے کے بارے میں بتایا تو آپ نے فرمایا: جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا کہ میں آپ کو اس بات کی خوشخبری نہ سناؤں کہ اللہ عزوجل نے آپ کے لیے فرمایا ہے:

(من صلى عليك صليت عليه ومن سلم عليك سلمت عليه فسجدت لله عزوجل شكرا) (مسند احمد 192/1، اس کی سند ضعیف ہے۔)

’’جو آپ پر درود پڑھے میں اس پر رحمتیں نازل کروں گا اور جو آپ پر سلام پڑھے میں اس پر سلامتی بھیجوں گا تو (یہ بات سن کر) میں نے بطور شکر سجدہ کیا۔‘‘

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ریاض الصالحین میں ایک باب یوں قائم کیا ہے:

(باب استحباب سجود الشكر عند حصول نعمة ظاهرة او اندفاع بلية ظاهرة)

(کسی ظاہری نعمت کے حاصل ہونے یا کسی ظاہری مصیبت کے ٹلنے کے وقت سجدہ شکر کے مستحب ہونے کا بیان۔)

اس باب کے تحت انہوں نے ایک ضعیف حدیث بیان کی ہے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے سے مدینے جانے کی نیت سے نکلے۔ جب ہم عزوراء (جگہ) کے قریب پہنچے تو آپ اپنی سواری سے نیچے اترے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کی پھر آپ سجدے میں گر گئے اور کافی دیر تک سجدے میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ اٹھا کر کچھ دیر دعا کی اور پھر سجدے میں گر پڑے۔ اس طرح آپ نے تین مرتبہ کیا اور فرمایا:

(إني سألت ربي، وشفعت لأمتي، فأعطاني ثلث أمتي، فخررت ساجدا لربي شكرا، ثم رفعت رأسي فسألت ربي لأمتي، فأعطاني ثلث أمتي، فخررت ساجدا لربي شكرا، ثم رفعت رأسي فسألت ربي لأمتي، فأعطاني الثلث الآخر، فخررت ساجدا لربي)(ابوداؤد، الجھاد، سجود الشکر، ح: 2775)

’’میں نے اپنے رب سے سوال کیا اور اپنی امت کے لیے شفاعت کی تو اللہ نے مجھے میری امت کا تہائی حصہ عطا کیا تو میں شکر کے طور پر اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ پھر میں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے رب سے اپنی امت کے لیے سوال کیا تو میرے رب نے میری امت کا ایک تہائی عطا کیا۔ میں پھر شکر کے طور پر اپنے رب کے لیے سجدہ میں گر پڑا۔ پھر میں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے رب سے اپنی امت کے لیے سوال کیا تو مجھے آخری تہائی بھی عطا کر دیا تو میں اپنے رب کے لیے سجدہ ریز ہو گیا۔‘‘

سجدہ شکر کا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی ملتا ہے۔ سعید بن منصور نے ذکر کیا ہے جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مسلیمہ (کذاب) کے قتل کی خبر ملی تو انہوں نے سجدہ کیا۔

(السنن الکبری از بیہقی 724/2، سندا ضعیف ہے۔)

جب علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے مقتولین میں ذوالثدیۃ (خارجی) کو بھی پایا تو سجدہ ادا کیا۔ (مسند احمد 108/1)

’’اسی طرح کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ صحیحین میں موجود ہے کہ جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو وہ خوشخبری سن کر سجدے میں گر پڑے۔‘‘(بخاري، المغازي، حدیث کعب بن مالک، ح: 4418، مسلم، التوبة، توبة کعب بن مالک رضی اللہ عنه، ح: 2769)

سجدہ شکر سے متعلقہ احادیث دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لیے کوئی الگ خاص طریقہ بیان نہیں کیا گیا۔ سجدہ شکر کی ہیئت بھی عام سجدے جیسی ہی ہوتی ہے۔ البتہ اس کے لیے باوضو ہونا ضروری نہیں کیونکہ سجدہ شکر پر نماز کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن جبرین سے سوال کیا گیا کہ کیا سجدہ شکر کے لیے خاص دعا کرنی چاہئے اور کیا اس کے لیے وضو کرنا ضروری ہے؟ تو انہوں نے فرمایا؛

سجدہ شکر شریعت سے ثابت ہے جب انسان کو اُس کی مطلوب چیز مل جائے جس کی وہ تمنا کرتا تھا اور اس کے لیے اللہ جل و علا سے دعا کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ کے شکر اور (اُس کی) حمد کے لیے وہ سجدہ کرے گا کیونکہ اس پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا اور اسے خیر عطا کی اور بندہ کی طرف سے اس بات کا اقرار ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور فضل ہوا ہے۔ سجدہ میں سبحان ربی العظیم پڑھنے کے بعد یہ کلمات پڑھے:

(اللهم لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك وعظيم سلطانك)

سجدہ شکر کے لیے وضو شرط نہیں کیونکہ اس کے لیے احکامِ نماز نہیں ہیں۔

(مجلہ الفرقان، کویت، عدد: 362، 26 ستمبر 2005)

امام شوکانی فرماتے ہیں:

سجدہ شکر نماز سے الگ سجدہ ہے، نماز کے اندر صحیح نہیں ہے۔ (نیل الاوطار)

سجدہ شکر معمول کا سجدہ نہیں۔ اس کے لیے کوئی وقت مقرر کرنا بھی درست نہیں۔ احناف کے نزدیک نماز کے فورا بعد سجدہ شکر کرنا بھی پسندیدہ نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ سجدہ نماز کا ہی حصہ ہے۔ (الفقه علی المذاھب الاربعة 471/1)

نیز ہر نماز کے بعد سجدہ شکر کرنا سنت نبوی سے ثابت نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قرآن اور تفسیر القرآن،صفحہ:226

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ