السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مستشرق آرتھر جعفری نے کہا ہے کہ سورۃ الفاتحہ قرآن میں شامل نہیں کیونکہ اس سورت میں انسان اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتا ہے جبکہ باقی سورتوں میں اللہ انسانوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ اس اشکال کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کفار و مشرکین اور مستشرقین پینترے بدل بدل کر قرآن حکیم پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں مگر قرآن اپنی صداقت کا لوہا منوا چکا ہے۔ باطل کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہے یہودونصاریٰ کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ﴿لَّايَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ﴾(حٰم السجدة 41/42)) قرآن پر ان کے اشکالات ان کی حماقتوں کا منہ بولتا ثبوت اور﴿ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ﴾ (النور: 24/40) کا مصداق ہیں۔
آرتھر جعفری (Arthor Jeffery) (جو کہ جعفری نہیں جیفری ہے) کا اشکال بھی اس کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ بہت سی سورتیں ایسی ہیں جن میں یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتا ہے۔ (وہ سب مقامات قرآن کا ہی حصہ ہیں)۔ قرآن مجید کے وہ سب مقامات جہاں انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام اور دیگر صالحین کی ادعیہ ذکر کی گئی ہیں یہ دعائیں جو ربنا، اللهم، رب اور دیگر الفاظ سے شروع ہوتی ہیں وہ سب انسان کے اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہونے کی مثالیں ہیں۔
انسان کے اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہونے کے باوجود وہ سب مقامات اللہ تعالیٰ کا کلام ہی ہیں۔ بطور مثال درج ذیل دو مقامات ملاحظہ کریں:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا رَبَّنا وَلا تَحمِل عَلَينا إِصرًا كَما حَمَلتَهُ عَلَى الَّذينَ مِن قَبلِنا رَبَّنا وَلا تُحَمِّلنا ما لا طاقَةَ لَنا بِهِ وَاعفُ عَنّا وَاغفِر لَنا وَارحَمنا أَنتَ مَولىٰنا فَانصُرنا عَلَى القَومِ الكـٰفِرينَ ﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة
’’ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمارا مؤاخذہ نہ کرنا، ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طقت نہ ہو اور ہمیں معف کر دے! اور ہماری مغفرت کر دے اور ہم پر رحم کر! تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا کر دے۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿رَبَّنا لا تُزِغ قُلوبَنا بَعدَ إِذ هَدَيتَنا وَهَب لَنا مِن لَدُنكَ رَحمَةً إِنَّكَ أَنتَ الوَهّابُ ﴿٨﴾ رَبَّنا إِنَّكَ جامِعُ النّاسِ لِيَومٍ لا رَيبَ فيهِ إِنَّ اللَّهَ لا يُخلِفُ الميعادَ ﴿٩﴾... سورة آل عمران
’’ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کرنا اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطاا کر، یقینا تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا (داتا) ہے، ہمارے رب! تُو یقینا لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں، یقینا اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‘‘
نیز قرآن کے اور کئی مقامات بھی ہیں جہاں انسان اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتا ہے۔
(مثلا آل عمران: 3/35،36،38،40،41،47،191،194، المائدہ: 5/114 تمام قرآنی دعاؤں کے لیے دیکھیے ہماری شائع کردہ کتاب غسل، وضو اور نماز کا طریقہ)
ان کے علاوہ بھی قرآن پاک میں دیگر سینکڑوں مقامات ہیں جہاں انسان اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتا ہے۔ جیسے وہ مقامات اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں ایسے ہی سورۃ الفاتحہ بھی اللہ تعالیٰ کا کلام اور قرآن کا حصہ ہے۔
﴿قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ﴿٢١﴾ کی تفسیر
سوال: سورۃ الکھف (آیت: 21)﴿فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ﴿٢١﴾ سے کچھ لوگ قبروں پر بلڈنگ اور مسجد بنانے کی دلیل لیتے ہیں۔ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اصحاب کہف پر عمارت اور مسجد بنانے کی بات کی تھی؟ اگر مسجد بنانے والے مسلمان ہوں تو کیا ان کے اس عمل سے استدلال کیا جا سکتا ہے؟
جواب: جن لوگوں نے اصحاب کہف پر مسجد بنانے کا اعلان کیا تھا ان کے شریعت کے پابند ہونے کا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں اور نہ ان کے صالح ہونے کی ہی کوئی دلیل ہے۔ بلکہ اس کے برعکس قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنی طاقت کے بل بوتے پر یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ قرآن نے (غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ) کے الفاظ سے اسے اہل غلبہ و اقتدار کا فعل قرار دیا ہے۔ جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس اقدام کے لیے شریعت کے کسی حکم کی سند اُن کے پاس نہیں تھی بلکہ محض اثرورسوخ کی بنیاد پر یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کے اس عمل کی کوئی تعریف یا تحسین نہیں کی گئی اور نہ ان کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ اہل کتاب کی شریعت میں بھی قبروں پر عبادت گاہ تعمیر کرنا جائز نہ تھا ورنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس حرکت پر ملعون قرار نہ دیتے۔
اصحاب کہف پر عمارت بنانے والے اور عبادت گاہ تعمیر کرنے والے کون تھے؟ ان کے اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ان باتوں کی تفصیلات جاننے کے لیے چند مشہور مفسرین کا موقف ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"اس بستی والوں کا ارادہ ہوا کہ ان (اصحاب کہف) کے غار کا منہ بند کر دیا جائے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ جنہیں کام کا غلبہ حاصل تھا، انہوں نے ارادہ کیا کہ ہم تو ان کے اردگرد مسجد بنا لیں گے۔ امام ابن جریر نے ان لوگوں کے بارے میں دو قول نقل کیے ہیں: ایک یہ کہ ان میں سے مسلمانوں نے یہ کہا تھا۔ دوسرے یہ کہ یہ قول کفار کا تھا۔ واللہ اعلم۔
اس میں چھپائے رکھنے رکھنے کا تہیہ کیا۔ (تفسیر القرطبی)
جلال الدین سیوطی کے نزدیک مسجد بنانے کی بات بادشاہ نے کی تھی۔ لکھتے ہیں:
بادشاہ نے کہا: میں نیک لوگوں کے پاس ضرور ایک مسجد (معبد) بناؤں گا اورتادمِ اخیر اس میں اللہ کی عبادت کروں گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا یہی مطلب ہے:
﴿ قالَ الَّذينَ غَلَبوا عَلىٰ أَمرِهِم لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيهِم مَسجِدًا ﴿٢١﴾... سورة الكهف
امام عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم نے قتادہ سے بیان کیا ہے کہ ﴿قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ﴾ سے مراد امراء یا سلاطین ہیں۔ (الدر المنثور فی التفسیر الماثور)
امام رازی نے اس سلسلے میں کئی اقوال ذکر کیے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ غار کا دروازہ (راستہ) بند کر دیا جائے تاکہ نہ تو کوئی ان کے پاس جا سکے اور نہ کوئی انسان ان کے حالات سے واقف ہو جبکہ دوسرے لوگوں نے کہا کہ غار میں داخل ہونے والے راستے پر عبادت خانہ بنا دیا جائے۔ اس قول کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی پہچان رکھتے تھے۔ عبادت اور نماز کو بھی مانتے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ کافر لوگوں نے کہا تھا کہ اصحاب کہف ہمارے دین پر تھے ہم ان پر عمارت تعمیر کریں گے۔ مسلمانوں نے کہا کہ وہ ہمارے دین پر تھے ہم ان پر عبادت گاہ بنائیں گے ۔۔ (قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ) کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد مسلمان بادشاہ ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اصحاب کہف کے ورثاء تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ شہر کے سردار اور حکمران تھے۔ (التفسیر الکبیر)
علامہ آلوسی نے بھی امام رازی سے ملتے جلتے اقوال نقل کیے ہیں۔ نیز لکھتے ہیں:
آیت زیر بحث سے صالحین کی قبروں پر عمارت بنانے، ان پر مسجد تعمیر کرنے اور اس میں نماز پڑھنے کے جواز کا بھی بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے۔
علامہ آلوسی کے نزدیک یہ استدلال درست نہیں، وہ فرماتے ہیں:
"وهو قول باطل عاطل فاسد كاسد"
’’یہ قول (استدلال) بالکل باطل، بے دلیل، فاسد اور مردود ہے۔‘‘ (روح المعانی)
سید احمد حسن محدث دہلوی لکھتے ہیں:
جو لوگ اس قصہ سے پہلے حشر کے منکر تھے ان جوانوں کا حال دیکھ کر اتنے قائل ہوئے کہ اس غار پر عمارت بنانے کو تیار ہو گئے اور جب حشر کے ماننے والے لوگوں نے وہاں عبادت خانہ بنانے کا قصد کیا تو ان سے جھگڑنے لگے، آکر بادشاہ کے حکم سے وہاں عبادت خانہ بنا دیا گیا ۔۔ صحیح بخاری میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبُرو یہودونصاریٰ کے عبادت خانوں کا ذکر آیا، آپ نے مذمت کے طور پر فرمایا: ان لوگوں میں دستور ہے کہ جب کوئی نیک آدمی ان میں فوت ہو جاتا ہے تو اس کی قبر کے پاس عبادت خانہ بنا کر اس میں اس نیک آدمی کی تصویر بھی بنا دیتے ہیں۔ (بخاري، الصلاة، الصلاة فی البیعة، ح: 434)
اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ جس دستور کے موافق اس غار کے پاس عبادت خانہ بنایا گیا ہے اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس سے اصحاب کہف ناخوش ہیں کیونکہ اس طرح کے عبادت خانہ کی بنیادی بت پرستی کی بنیاد ہے۔ اور اصحاب، کہف بت پرستی سے ہی بیزار ہو کر اس غار میں آ کر چھپے ہیں۔ (احسن التفاسیر)
سید قطب شہید رقمطراز ہیں:
’’کچھ لوگوں نے کہا کہ اصحاف کہف کی غار پر ایک عمارت بنا دو تاکہ ان کی یادگار تو قائم رہے مگر یہ معلوم نہ ہو کہ ان کا دین کیا تھا؟ اس وقت کے اربابِِ قتدار نے کہا کہ نہیں، ہم تو ان پر یہودو نصاریٰ کے طریقے کے مطابق ایک معبد بنائیں گے، اسلام نے اس کی صریح ممانعت کر دی ہے، کیونکہ اس سے قبروں اور اصحاب قبور کی پرستش کا رواج چل پڑتا ہے، جاہل عوام حدود کے اندر نہیں رہتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معبد ان اصحاب قبور کی عبادت کے لیے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے یہودونصاریٰ پر لعنت کی جنہوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا ڈالا تھا۔آج کل ان یہودونصاریٰ کی پیروی کرنے والے مسلمان بھی یہی کام کرتے ہیں۔‘‘ (فی ظلال القرآن)
سید مودودی نے سورۃ الکھف کی زیر بحث آیت کی تفسیر میں بہت واضح موقف اختیار کیا ہے، لکھتے ہیں:
اس سے مراد رومی سلطنت کے ارباب اقتدار اور مسیحی کلیسا کے مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں صالح العقیدہ عیسائیوں کی بات نہ چلتی تھی، پانچویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے عام عیسائیوں میں اور خصوصا رومن کیتھولک کلیسا میں شرک، اولیاء پرستی اور قبر پرستی کا پورا زور ہو چکا تھا، بزرگوں کے آستانے پوجے جا رہے تھے۔ اور مسیح علیہ السلام، مریم علیہا السلام اور حواریوں کے مجسمے گرجوں میں رکھے جا رہے تھے۔ اصحاب کہف کے بعث سے چند ہی سال پہلے چار سو اکتیس عیسوی میں پوری عیسائی دنیا کے مذہبی پیشواؤں کی ایک کونسل اسی افسس کے مقام پر منعقد ہو چکی تھی جس میں مسیح علیہ السلام کی اُلوہیت اور مریم علیہا السلام کے "مادرِ کدا" ہونے کا عقیدہ چرچ کا سرکاری عقیدہ قرار پایا تھا۔ اس تاریخ کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ﴿قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ﴾سے مراد وہ لوگ ہیں جو سچے پیرووانِ مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے راہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں۔ یہی لوگ دراصل شرک کے علمبردار تھے اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحاب کہف کا مقبرہ بنا کر اسے عبادت گاہ بنایا جائے۔ مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس آیت کا بالکل الٹا مفہوم لیا ہے۔ وہ اسے دلیل ٹھہرا کر مقابرِ صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے کے لیے دکھائی گئی تھی اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے ایک خداداد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو کچھ اور ولی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے۔ پھر آخر اس آیت سے قبورِ صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشاددات اس کی نفی میں موجود ہیں۔
اس کے بعد سید مودودی نے چار احادیث نقل کی ہیں جن میں قبر پر عبادت بنانے سے منع کیا گیا ہے، ان لوگوں پر لعنت کی گئی ہے جنہوں نے ایسا عمل کیا ہے نیز اس قسم کے لوگوں کو شرار الخلق (بدترین مخلوق) قرار دیا گیا ہے۔ مولانا موصوف لکھتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جراءت کر سکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس فعل کا حکایۃ ذکر کیا گیا ہے اسے ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھہرائے؟ (تفہیم القرآن)
مولانا ابوالکلام آزاد نے آیت کے ترجمہ میں ہی اپنا موقف واضح کر دیا ہے:
’’ان لوگوں نے کہ معاملات پر غالب آ گئے تھے، کہا: ٹھیک ہے ہم ضرور ان کے مرقد پر ایک عبدت گاہ بنائیں گے۔‘‘
تفسیر میں مولانا لکھتے ہیں:
جس قوم کے ظلم سے عاجز آ کر انہوں نے غار میں پناہ لی تھی وہی ان کی اس درجہ معتقد ہوئی کہ ان کے مرقد پر ایک ہیکل تعمیر کیا گیا۔ (ترجمان القرآن)
قاضی محمد ثناءاللہ پانی پتی نے اس سلسلے میں تاویل سے کام لیا ہے البتہ اس بات پر وہ بھی متفق ہیں کہ احادیث سے قبروں کو پختہ کرنے، اونچا کرنے اور ان کے اوپر عمارت بنانے کی ممانعت ثابت ہو رہی ہے۔ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے کہا: ہم یہاں مسجد بنائین گے، یہ لوگ ہمارے ہم مذہب تھے۔ غیر مسلموں نے کہا: ہم یہاں عمارتیں بنائیں گے، بستی آباد کریں گے جہاں لوگ رہیں گے یا غار کے دروازے پر ایسی عمارت بنائیں گے کہ لوگوں کا اندر جانا بند ہو جائے۔ (تفسیر مظہری)
عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں:
﴿إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ﴾ یعنی جب لوگوں میں اس امر پر گفتگو ہو رہی تھی کہ ان بزرگوں کی نعشوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ ہوا یہ کہ جب لوگ ان کی زیارت کو جوق در جوق آنے لگے، اور غار کے دروازہ پر میلہ سا لگنے لگا تو ان حضرات کو وفات دے دی گئی۔ اور اب یہ گفتگو ہونے لگی کہ ان مقدس جسموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا میں عَلَيْهِم سے مراد ہے ان کے غار کے اوپر۔ ان کے غار کے دروازے پر۔ (مدارک)
﴿لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا﴾کی تفسیر میں مولانا موصوف لکھتے ہیں: (تاکہ اس امر کی علامت قائم رہے کہ یہ لوگ عابد و اہل توحید تھے۔ کوئی انہیں معبود نہ بنا لے) جو غار اصحاب کہف کی جانب منسوب ہے اس کے دہانہ پر ایک مسیحی خانقاہ اب بھی موجود ہے۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ ﴿الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ﴾ سے مراد احکامِ وقت ہیں۔ (بحر، کبیر) مَّسْجِدًا۔ مسجد یہاں معبد یا پرستش گاہ کے عام معنی میں ہے۔ اسلامی مسجد کے اصطلاحی معنی میں نہیں۔ ﴿لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا﴾کی تفسیر میں مفسر تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے فقہاء مفسرین نے لکھا ہے کہ اگر کسی زمانہ میں مسجد کے بنانے سے بجائے مصالح کے مفاسد کا ظہور ہونے لگے تو مسجد بنانا جائز نہ رہے گا۔ مرشد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس مسجد سے وہ قصد نہ تھا، جو جاہلوں کا قبور کے پاس مسجد بنانے سے ہوتا ہے، اس لیے قبر پرستوں کو کوئی حجت و نظیر اس سے نہیں مل سکتی۔ (تفسیر ماجدی)
علامہ ناصر الدین البانی نے اس مسئلہ پر مکمل بحث کرنے کے بعد خلاصہ یوں تحریر کیا؛
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مسجد بنانے والوں کو ملعون قرار دیا ہے ۔۔ پھر یہ آیت ﴿لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا﴾ ان آیات کی طرح نہیں ہے جن سے ائمہ نے بعض مسائل میں استدلال کیا ہے۔ اس آیت میں بس ایک فریق کے اصحابِ کہف کی قبروں پر مسجد تعمیر کرنے کے قول اور عزم کو حکایۃ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں اس فریق کی مدح و تحسین کا پہلو ہے نہ ان کی اقتدا کرنے کی ترغیب۔ اس لیے جب تک یہ نہ ثابت ہو کہ ان میں کوئی معصوم بھی تھا اس وقت تک ان کا کسی کام کا عزم و ارادہ تو کُجا اسے عملی جامہ پہنا دینا بھی اس کام کی مشروعیت کی دلیل نہیں ہو سکتا، نیز ان کے فعل کے قابل توجہ نہ ہونے کا ایک قوی سبب یہ بھی ہے کہ وہ جیسا قتادہ دیگر سے مروی ہے۔ امراء و حکام تھے جو مذہب کی پابندی سے کم اور دنیاوی نام و نمود کے کاموں سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ بہرحال اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ اصحاب کہف کے بارے میں پہلی جماعت مومنین کی جماعت تھی جو قبروں پر عبادت گاہ بنانے کی حرمت سے واقف تھی اس لیے اس نے غار کے دروازے پر دیوار چُن دینے اور دروازے کو بند کر دینے اور اصحاب کہف سے کوئی تعرض نہ کرنے کا مشورہ دیا مگر دوسری جماعت نے، جو امراء و حکام پر مشتمل تھی، مشورہ کو قبول نہیں کیا بلکہ اور جوش میں آ گئی اور قسم کھا کر کہنے لگی کہ ہم اصحاب کہف کی قبروں پر ضرور مسجد تعمیر کریں گے۔
(تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد اردو ترجمہ: قبروں پر مساجد اور اسلام از مولانا محفوظ الرحمٰن فیضی۔ ط: درارقم، فیصل آباد)
وہ یہ چاہتے ہیں کہ اپنے اقتدار کو طول دے سکیں اور اپنے شرکیہ عقائد کو مزید رواج دے سکیں۔ جس سے ان کی شہرت اور زیادہ ہو جائے ایسا اصحاب کہف کو اپنے زمرے میں شامل کر کے ہی ممکن تھا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے (هَـٰذَا رَبِّي) کے الفاظ کس لیے استعمال کیے؟
سوال: سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ستارے، چاند اور سورج کے لیے (هَـٰذَا رَبِّي) کے الفاظ استعمال کیے۔ یہ الفاظ غوروفکر کے لیے کہے گئے یا قوم کو سمجھانے کے لیے؟
جواب: ابراہیم علیہ السلام کی قوم چاند، سورج اور ستاروں کی پوجا کرتی تھی، آپ علیہ السلام نے ان معبودانِ باطلہ سے حکیمانہ انداز میں بیزاری کا اعلان کیا اور مناظرانہ اسلوب میں ان کے عقیدے کی خامی واضح کی ورنہ ابراہیم علیہ السلام کو تو اپنے معبود حقیقی میں کوئی شک نہ تھا۔ انہیں تو اللہ نے پہلے سے ہی رشدوہدایت عطا کی تھی، ارشاد الہٰی ہے:
﴿وَلَقَد ءاتَينا إِبرٰهيمَ رُشدَهُ مِن قَبلُ وَكُنّا بِهِ عـٰلِمينَ ﴿٥١﴾... سورة الأنبياء
یہ رشد اور دانائی ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو شرک سے روکنے اور توحید الہٰی منوانے کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کو جو معرفت الہٰی حاصل تھی اس کی بنیاد پر وہ نہ صرف قوم کو گمراہ سمجھتے تھے بلکہ وہ دو ٹوک الفاظ میں مشرکین کی تردید بھی کرتے تھے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذ قالَ إِبرٰهيمُ لِأَبيهِ ءازَرَ أَتَتَّخِذُ أَصنامًا ءالِهَةً إِنّى أَرىٰكَ وَقَومَكَ فى ضَلـٰلٍ مُبينٍ ﴿٧٤﴾... سورة الانعام
’’اور ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ کیا آپ بتوں کو معبود بناتے ہیں یقینا میں آپ کو اور آپ کی قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام کا ہدایت یافتہ ہونا اوپر بیان ہوا ہے اور ہدایت یافتہ وہی ہو سکتا ہے جو ایمان کے ساتھ ظلم (شرک) کی ملاوٹ نہ کرے۔ (دیکھیے الانعام: 6/82)
مزید برآں مذکورہ بالا بیانات کے بطور مناظرہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
﴿وَتِلكَ حُجَّتُنا ءاتَينـٰها إِبرٰهيمَ عَلىٰ قَومِهِ... ﴿٨٣﴾...سورة الانعام
’’یہ دلیل ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابل سمجھائی تھی۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم سے بحث و جدال کی غرض سے تھا نہ کہ اپنی ذات کے لیے تلاش حق کا۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واقعتا رب کہنا صریح شرک ہے، قرآن مجید نے ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہم السلام سے دو ٹوک انداز میں ارتکاب شرک کی نفی کی ہے، ابراہیم علیہ السلام سمیت اٹھارہ انبیاء علیہم السلام اور دیگر ہدایت یافتہ لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ذٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهدى بِهِ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ وَلَو أَشرَكوا لَحَبِطَ عَنهُم ما كانوا يَعمَلونَ ﴿٨٨﴾... سورة الانعام
’’یہ اللہ کی ہدایت تھی، اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے ہدایت کرتا ہے اور اگر یہ (انبیاء و رسل) بھی شرک کرتے تو ان کا کیا کرایا سب اکارت جاتا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ردِ شرک اور اثباتِ توحید کی خاطر اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو دلیل عطا کی تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے اعتقاد کے مطابق یہ میرا رب ہے؟ امام قرطبی رحمہ اللہ اس کی مثال قرآن سے پیش کرتے ہیں:
﴿أَينَ شُرَكاءِىَ...﴿٢٧﴾... سورة النحل
’’کہاں ہیں میرے شریک؟‘‘
یعنی جنہیں میرا شریک کہتے تھے وہ کہاں ہین؟ (القرطبی)
(مزید مثالوں کے لیے دیکھیے الکھف: 18/52، القصص: 28/62، 74، حم السجدۃ: 41/47)
ابراہیم علیہ السلام نے جو ﴿هَـٰذَا رَبِّي﴾ کہا تھا، اس کے بارے میں امام رازی فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے:
"هذا ربى فى زعمكم و اعتقادكم"
’’یہ تمہارے دعوے اور اعتقاد کے مطابق میرا رب ہے۔‘‘
اس کی نظیر کے طور پر امام رازی نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو پیش کیا ہے:
﴿وَانظُر إِلىٰ إِلـٰهِكَ الَّذى ظَلتَ عَلَيهِ عاكِفًا...﴿٩٧﴾... سورة طه
"(سامری!) تو اپنے معبود کی طرف دیکھ جس پر تو جما رہا ہے۔‘‘
اس سے مراد یہی ہے کہ جسے تو معبود سمجھتا ہے ورنہ درحقیقت اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب