السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ایک عالم سے سنا جو کہہ رہے تھے کہ نائن الیون کے واقعہ کے ذکر قرآن مجید میں ہے، انہوں نے دلیل یہ پیش کی کہ سورۃ التوبہ کی آیت 110 میں اس کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس سورت کا نمبر 9 ہے اور پارہ 11 میں ہے چونکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی 110 منزلیں ہیں، لہذا آیت، سورت اور پارہ کی اس واقعہ سے مناسبت پائی جاتی ہے۔ کیا یہ تفسیر درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ تفسیر درست نہیں کیونکہ جس آیت سے دلیل پیش کی گئی ہے وہ آیت اُس مسجد کے بارے میں ہے جو منافقین نے بنائی تھی جو کہ مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہے۔ ٹریڈ سنٹر اور مسجد میں کوئی مناسبت نہیں۔ اس سلسلے کی تمام آیات دیکھنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ بالا تفسیر غلط ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذينَ اتَّخَذوا مَسجِدًا ضِرارًا وَكُفرًا وَتَفريقًا بَينَ المُؤمِنينَ وَإِرصادًا لِمَن حارَبَ اللَّهَ وَرَسولَهُ مِن قَبلُ وَلَيَحلِفُنَّ إِن أَرَدنا إِلَّا الحُسنىٰ وَاللَّهُ يَشهَدُ إِنَّهُم لَكـٰذِبونَ ﴿١٠٧﴾ لا تَقُم فيهِ أَبَدًا لَمَسجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقوىٰ مِن أَوَّلِ يَومٍ أَحَقُّ أَن تَقومَ فيهِ فيهِ رِجالٌ يُحِبّونَ أَن يَتَطَهَّروا وَاللَّهُ يُحِبُّ المُطَّهِّرينَ ﴿١٠٨﴾ أَفَمَن أَسَّسَ بُنيـٰنَهُ عَلىٰ تَقوىٰ مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنٍ خَيرٌ أَم مَن أَسَّسَ بُنيـٰنَهُ عَلىٰ شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانهارَ بِهِ فى نارِ جَهَنَّمَ وَاللَّهُ لا يَهدِى القَومَ الظّـٰلِمينَ ﴿١٠٩﴾ لا يَزالُ بُنيـٰنُهُمُ الَّذى بَنَوا ريبَةً فى قُلوبِهِم إِلّا أَن تَقَطَّعَ قُلوبُهُم وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ ﴿١١٠﴾... سورة التوبة
’’اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس سے پہلے ہی سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے، اور وہ قسمیں کھا جائیں گے کہ بجز بھلائی کے ہماری کچھ اور نیت نہیں، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں، آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہوں، البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے، پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو، یا وہ شخص، کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر، جو کہ گرنے ہی کو ہو، رکھی ہو، پھر وہ اسے لے کر آتشِ دوزخ میں گر پڑے، اور اللہ ایسے ظالموں کو سمجھ ہی نہیں دیتا۔ ان کی یہ عمارت، جو اُنہوں نے بنائی ہے، ہمیشہ ان کے دلوں میں شک کی بنیاد پر (کانٹا بن کر) کھٹکتی رہے گی، ہاں مگر ان کے دل ہی اگر پاش پاش ہو جائیں تو خیر، اور اللہ بڑا علم والا اور بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
یہ بھی واضح رہے کہ شریعت اسلامی میں بیان ہونے والی پیش گوئیاں اور دیگر احکام قمری سال کی بنیاد پر ہیں نہ کہ شمسی سال کی بنیاد پر۔
یہ بھی معلوم رہنا چاہئے کہ پاروں کی تقسیم اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نہیں۔ سہولت کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ لہذا ان کی بنیاد پر تفسیری نکات بیان کرنا غلط ہو گا۔
اگر اس طرح قرآن کی تفسیر کی جائے تو اکثر اوقات ایسی تفسیر قرآن و حدیث اور حقائق کے صریحا منافی ہوتی ہے۔ مثلا اگر ایک شخص مذکورہ انداز تفسیر کے مطابق آیت: ﴿إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا﴾ کی تفسیر یوں بیان کرے کہ آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیان تین صدیوں کا فاصلہ ہے، ہر صدی میں تین تین نسلیں پیدا ہوئیں۔ اور ہر نسل میں سے 33،33 خاندان بنے کیونکہ یہ آیت پارہ 3 سورۃ آل عمران میں ہے اور سورت کا نمبر 3 ہے جبکہ آیت کا نمبر 33 ہے۔ تو یہ تفسیر خلافِ حقیقت ہو گی۔ تفسیر کرنے کا یہ انداز قطعی طور پر غلط ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب