السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ بات درست ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا باپ مومن تھا مشرک نہیں تھا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید کے بیان کے مطابق ابراہیم علیہ السلام کا والد بت پرست (مشرک)، شیطان کا پجاری، گمراہ، وقت کے نبی کا نافرمان اور اللہ تعالیٰ کا دشمن تھا۔ اسی وجہ سے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنمی قرار دیا ہے، قرآن مجید اور احادیث میں ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر بیان ہوا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام تارخ تھا، ممکن ہے ایک نام ہو اور دوسرا لقب۔ اس لیے کہ تارخ اور آزر دو الگ الگ آدمیوں کے نام نہیں ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ آزر ابراہیم علیہ السلام کا چچا تھا بے بنیاد ہے۔ دراصل ایسے لوگ اپنے من گھڑت باطل نظریات کو بچانے کے لیے قرآن و حدیث کے واضح دلائل کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، یعنی
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
حالانکہ قرآن نے دو ٹوک الفاظ میں آزر کا ابراہیم علیہ السلام کے والد کی حیثیت سے تذکرہ کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذ قالَ إِبرٰهيمُ لِأَبيهِ ءازَرَ أَتَتَّخِذُ أَصنامًا ءالِهَةً إِنّى أَرىٰكَ وَقَومَكَ فى ضَلـٰلٍ مُبينٍ ﴿٧٤﴾... سورة الانعام
’’اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ کیا آپ بتوں کو معبود قرار دیتے ہیں؟ بےشک میں آپ کو اور آپ کی قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں۔‘‘
سورۃ مریم (آیات 41 تا 46) میں تو بار بار يَا أَبَتِ يَا أَبَتِ (اے ابا جان) کے الفاظ آئے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَاذكُر فِى الكِتـٰبِ إِبرٰهيمَ إِنَّهُ كانَ صِدّيقًا نَبِيًّا ﴿٤١﴾ إِذ قالَ لِأَبيهِ يـٰأَبَتِ لِمَ تَعبُدُ ما لا يَسمَعُ وَلا يُبصِرُ وَلا يُغنى عَنكَ شَيـًٔا ﴿٤٢﴾ يـٰأَبَتِ إِنّى قَد جاءَنى مِنَ العِلمِ ما لَم يَأتِكَ فَاتَّبِعنى أَهدِكَ صِرٰطًا سَوِيًّا ﴿٤٣﴾ يـٰأَبَتِ لا تَعبُدِ الشَّيطـٰنَ إِنَّ الشَّيطـٰنَ كانَ لِلرَّحمـٰنِ عَصِيًّا ﴿٤٤﴾ يـٰأَبَتِ إِنّى أَخافُ أَن يَمَسَّكَ عَذابٌ مِنَ الرَّحمـٰنِ فَتَكونَ لِلشَّيطـٰنِ وَلِيًّا ﴿٤٥﴾ قالَ أَراغِبٌ أَنتَ عَن ءالِهَتى يـٰإِبرٰهيمُ لَئِن لَم تَنتَهِ لَأَرجُمَنَّكَ وَاهجُرنى مَلِيًّا ﴿٤٦﴾... سورة مريم
’’اور اس کتاب میں ابراہیم کا قصہ بیان کریں، بیشک وہ بڑی سچائی والے نبی تھے، جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابوجی! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں، نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکیں، ابوجی! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں، تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا، ابا جان! شیطان تو رحم و کرم والے اللہ کا بڑا ہی نافرمان ہے، ابا جان! مجھے خوف لگا ہوا ہے کہ کہیں آپ پر کوئی عذاب الہٰی نہ آ پڑے کہ آپ شیطان کے رفیق بن جائیں، اس نے جواب دیا: ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے، سن اگر تو باز نہ آایا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا، جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رہ۔‘‘
قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہے:
﴿وَما كانَ استِغفارُ إِبرٰهيمَ لِأَبيهِ إِلّا عَن مَوعِدَةٍ وَعَدَها إِيّاهُ فَلَمّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنهُ إِنَّ إِبرٰهيمَ لَأَوّٰهٌ حَليمٌ ﴿١١٤﴾... سورة التوبة
’’اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا صرف وعدہ کے سبب سے تھا جو انہوں نے اس سے کر لیا تھا، پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بے تعلق ہو گئے، واقعی ابراہیم بڑے نرم دل اور بردبار تھے۔‘‘
ایک اور مقام پر ہے:
﴿إِذ قالَ لِأَبيهِ وَقَومِهِ ما هـٰذِهِ التَّماثيلُ الَّتى أَنتُم لَها عـٰكِفونَ ﴿٥٢﴾... سورة لأنبياء
’’جب انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا ہیں؟‘‘
قیامت کے دن ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے چہرے پر سیاہی اور گردوغبار جما ہوا ہو گا (جو کہ کفار و مشرکین کی حالت ہو گی) ارشاد نبوی ہے:
(يلقى إبراهيم أباه آزر يوم القيامة ، وعلى وجه آزر قترة وغبرة ; فيقول له إبراهيم : ألم أقل لك لا تعصني ؟ فيقول له أبوه : فاليوم لا أعصيك . فيقول إبراهيم : يا رب ! إنك وعدتني أن لا تخزيني يوم يبعثون ، فأي خزي أخزى من أبي الأبعد ، فيقول الله تعالى : إني حرمت الجنة على الكافرين ، ثم يقال لإبراهيم : ما تحت رجليك ؟ فينظر فإذا هو بذيخ متلطخ ، فيؤخذ بقوائمه فيلقى في النار)(بخاري، الانبیاء، قول اللہ تعالیٰ: وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴿١٢٥﴾ ح: 3350)
’’ابراہیم اپنے والد آزر کو قیامت کے دن دیکھیں گے، اس کے منہ پر سیاہی اور گردوغُبار ہو گا، ان سے کہیں گے: میں نے (دنیا میں) تم سے نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کریں (کہا مانیں۔) آزر کہے گا: آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا (جو تو کہے گا بجا لاؤں گا) اس وقت ابراہیم علیہ السلام (پروردگار سے) عرض کریں گے: پروردگار! تو نے (میری یہ دعا قبول کی تھی، جو سورۃ الشعراء میں ہے) مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ قیامت کے دن تجھے ذلیل نہیں کروں گا، اس سے زیادہ کون سی ذلت ہو گی، میرا باپ ذلیل ہوا، جو تیری رحمت سے محروم ہے، اللہ فرمائے گا، میں نے تو کافروں پر بہشت حرام کر دی ہے، پھر ابراہیم کو تسلی دینے کے لیے کہا جائے گا: ذرا اپنے پاؤں تلے تو دیکھو! وہ دیکھیں گے تو (اُن کا والد تو نظر نہیں آئے گا البتہ) نجاست سے لتھڑا ایک بجو ہو گا،اس کے پاؤں سے پکڑ کر (فرشتے) اسے دوزخ میں ڈال دیں گے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب