السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کراما کاتبین انسان کے اقوال لکھتے ہیں یا اعمال بھی؟ سورۃ ق میں انسان کے اقوال (مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ ۔۔) لکھنے کا تذکرہ ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سورۃ ق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِذ يَتَلَقَّى المُتَلَقِّيانِ عَنِ اليَمينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعيدٌ ﴿١٧﴾ ما يَلفِظُ مِن قَولٍ إِلّا لَدَيهِ رَقيبٌ عَتيدٌ ﴿١٨﴾... سورة ق
’’جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں، ایک دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔ وہ (انسان) کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿أَم يَحسَبونَ أَنّا لا نَسمَعُ سِرَّهُم وَنَجوىٰهُم بَلىٰ وَرُسُلُنا لَدَيهِم يَكتُبونَ ﴿٨٠﴾... سورة الزخرف
’’کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور سرگوشیوں کو نہیں سنتے (یقینا ہم سنتے ہیں۔) بلکہ ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔‘‘
ان آیات میں اقوال لکھنے کا تذکرہ ہے جبکہ دیگر کئی آیات میں اقوال کے ساتھ ساتھ افعال و اعمال لکھنے کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿كِرامًا كـٰتِبينَ ﴿١١﴾ يَعلَمونَ ما تَفعَلونَ ﴿١٢﴾... سورة الانفطار
’’لکھنے والے مقرر ہیں، جو کچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں۔‘‘
(يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ﴿١٢﴾سے معلوم ہوا کہ انسان کے افعاال بھی لکھے جاتے ہیں۔ پھر انہی اعمال کے مطابق انسانوں کے کامیاب اور ناکام ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی لیے مذکورہ آیات کے بعد نیک و بد ہر دو قسم کے لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَإِذا أَذَقنَا النّاسَ رَحمَةً مِن بَعدِ ضَرّاءَ مَسَّتهُم إِذا لَهُم مَكرٌ فى ءاياتِنا قُلِ اللَّهُ أَسرَعُ مَكرًا إِنَّ رُسُلَنا يَكتُبونَ ما تَمكُرونَ ﴿٢١﴾... سورة يونس
’’اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو، کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ فورا ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں۔ کہیں کہ اللہ کی تدبیر تمہاری چالوں پر غالب ہے۔ بالقیین ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں۔‘‘
اسی طرح سورۃ الجاثیۃ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَتَرىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جاثِيَةً كُلُّ أُمَّةٍ تُدعىٰ إِلىٰ كِتـٰبِهَا اليَومَ تُجزَونَ ما كُنتُم تَعمَلونَ ﴿٢٨﴾ هـٰذا كِتـٰبُنا يَنطِقُ عَلَيكُم بِالحَقِّ إِنّا كُنّا نَستَنسِخُ ما كُنتُم تَعمَلونَ ﴿٢٩﴾... سورة الجاثية
’’اور آپ دیکھیں گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل گری ہوئی ہو گی۔ ہر گروہ اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا۔ آج تمہیں اپنے کیے کا بدلہ دیا جائے گا۔ یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے۔ ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے تھے۔‘‘
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَوُضِعَ الكِتـٰبُ فَتَرَى المُجرِمينَ مُشفِقينَ مِمّا فيهِ وَيَقولونَ يـٰوَيلَتَنا مالِ هـٰذَا الكِتـٰبِ لا يُغادِرُ صَغيرَةً وَلا كَبيرَةً إِلّا أَحصىٰها وَوَجَدوا ما عَمِلوا حاضِرًا وَلا يَظلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ﴿٤٩﴾... سورةالكهف
’’اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ تو آپ دیکھیں گے کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوف زدہ ہو رہے ہوں گے اور یہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری خرابی! یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا (عمل) بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم و ستم نہ کرے گا۔‘‘
مذکورہ بالا آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی ساری زندگی کا مکمل ریکارڈ تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے سب اقوال اور اعمال و افعال ثبت کر لیے جاتے ہیں۔ روزِ قیامت ہر چیز کھل کر انسان کے سامنے آ جائے گی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَكُلَّ إِنسـٰنٍ أَلزَمنـٰهُ طـٰئِرَهُ فى عُنُقِهِ وَنُخرِجُ لَهُ يَومَ القِيـٰمَةِ كِتـٰبًا يَلقىٰهُ مَنشورًا ﴿١٣﴾ اقرَأ كِتـٰبَكَ كَفىٰ بِنَفسِكَ اليَومَ عَلَيكَ حَسيبًا ﴿١٤﴾... سورة الإسراء
’’ہم نے ہر انسان کی بھلائی برائی کو اُس کے گلے لگا دیا ہے اور روزِ قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پائے گا۔ لے خود ہی اپنی کتاب پڑھ لے، آج تو تو خود ہی اپنا حساب لینے کے لیے کافی ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب