السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تعویذ پہننا شرک اصغر ہے۔؟کیا قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات پہننا جائز ہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تعویذ اگر شرکیہ الفاظ پر مشتمل اور آدمی اس کی عبادت کرتا ہو تو تعویذ پہننا شرک اکبر ہے، اور اگر اس تعویذ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ یہ سلامتی کا ایک ذریعہ ہے تو شرک اصغر ہے۔ قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات کے بارے میں اہل علم کے ما بین دو موقف پائے جاتے ہیں،لیکن راجح اور مبنی بر احتیاط موقف یہی ہے کہ اس سے بھی اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ نہی پر مبنی احادیث عام ہیں جو قرآنی اور غیر قرآنی تمام قسم کے تعویذات کو شامل ہیں۔نہی پر مبنی احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں۔
’’ قال النبي صلى الله عليه سلم " من علق تميمة فلا أتم الله له " (رواه أحمد , أبو داؤد , ابن ماجه وصححه الشيخ الألباني رحمه الله )‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے تعویذ لٹکایا (پہنا) اللہ تعالی اسکی مراد پوری نہ کرے ۔
’’ قال النبي صلى الله عليه سلم " من تعلق تميمة فقد أشرك " (رواه أحمد والحاكم ) و وصححه الشيخ الألباني رحمه الله )‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے تعویذ لٹکایا (پہنا) اس نے شرک کیا ۔
’’ عن عقبة بن عامر الجهني رضي الله عنه أن رسول الله أقبل إليه رهط فبايع تسعة وأمسك عن واحد فقالوا يا رسول الله بايعت تسعة وتركت هذا ؟ قال إن عليه تميمة فأدخل يده فقطعها فبايعه وقال من علق تميمة فقد أشرك .(مسند أحمد )‘‘
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ راوی حدیث ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جماعت آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان میں سے ) نو سے بیعت لی اور ایک کو چھوڑ دیا ، انھوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے نو سے بیعت لی اور اسکو چھوڑ دیا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر تعویذ ہے (وہ تعویذ پہنے ہوۓ ہے ) چنانچہ اپنے ہاتھ کو داخل کیا اور اس (تعویذ)کو کاٹ دیا اور فرمایا جس نے تعویذ پہنا اس نے شرک کیا ۔
’’ وقال النبي صلى الله عليه سلم للذي رأي في يده حلقة من صفر ماهذا ؟ فقال من الواهنة , قال انزعها فإنها لا تزيدك إلا وهنا فإنك لو مت وهي عليك ما أفلحت أبدا .( رواه أحمد والحاكم وصححه الشيخ الألباني رحمه الله ) ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں پیتل کا ایک چھلہ دیکھا تو کہا۔ یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا واہنہ (ایک مرض )کی وجہ سے پہنے ہوئے ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اتار دو یہ تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ تمہاری کمزوری میں مزید اضافہ کرےگا اور اگر اس چھلے کو پہنے ہوئے موت ہوگئ تو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے۔
’’ وقال سعيد بن جبير رحمه الله من قطع تميمة من إنسان كان كعدل رقبة ) ‘‘ (رواه إبن أبي شيبة 7/375)
سعيد بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس نے کسی انسان سے تعویذ کاٹ دی تو یہ ایک گردن آزاد کرنے کے برابر ہے ۔
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرکیہ الفاظ پر مبنی تعویذ شرک ہے ،لہذا اس سے بچنا ضروری ہے اسی طرح بعض وہ کتابیں جو تعویذ وں کے بارے میں لکھی گئی ہیں جن پر بدعتی اور علماء سوء اعتماد کرتے ہیں اور انہی کتابوں سے تعویذ لکھ لکھ کر لوگوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں ان سے بچنا اور دور رہنا بھی ضروری ہے ۔
اسی طرح قرآنی آیات پر مشتمل تعویذ بھی صحیح قول کے مطابق نا جائز ہے ۔
باقی رہا مسئلہ دم جھاڑے کا تو جھاڑ پھونک اگر قرآنی آیات یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ صحیح دعاؤں سے کیا جائے تو یہ جائز ہے ،لیکن اگر شرکیہ کلمات یا ایسے مبہم الفاظ سے جن کا معنیٰ ومطلب سمجھ میں نہ آئے ان سے کیا جائے تو ناجائز ہے ۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
جلد 09 ص
|