السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نماز میں سورتوں کو موجودہ ترتیب (ترتیبِ توقیفی) سے پڑھنا ضروری ہے یا اس کے برعکس بھی سورتوں کی تلاوت کی جا سکتی ہے؟ ایک امام صاحب نے پہلی رکعت میں سورۃ الاخلاص اور دوسری میں سورۃ الکوثر کی تلاوت کی تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس ترتیب سے سورتوں کا نماز میں پڑھنا جائز نہیں۔ کیا امام صاحب کا طرزِ عمل شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں جائز تھا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سورتوں کو نماز میں ترتیب سے تلاوت کرنا ضروری نہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدان ابوعبداللہ حذیفہ بن یمان انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں نے ایک رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ نے سورۃ البقرۃ شروع کی اور میں نے دل میں کہا کہ آپ شاید سو آیتوں پر رکوع کریں گے مگر آپ آگے بڑھ گئے۔ پھر میں نے خیال کیا کہ آپ شاید دو رکعت میں پوری سورت پڑھیں گے۔ لیکن آپ پھر آگے بڑھ گئے۔ پھر میں نے خیال کیا کہ آپ پوری سورت پر رکوع کریں گے۔ پھر آپ نے سورۃ النساء شروع کر دی اور یہ بھی پوری پڑھی۔ پھر آپ نے سورۃ آل عمران شروع کر دی اور آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے۔ جب آپ تسبیح والی آیت پڑھتے تو سبحان اللہ کہتے اور سوال والی آیت تلاوت کرتے تو سوال کرتے۔ اور جب تعوذ کی آیت پڑھتے تو (اللہ کی) پناہ مانگتے۔ پھر آپ نے رکوع کیا اور کہا: (سبحان ربى العظيم) (پاک ہے میرا پروردگار بہت بڑائی والا۔) آپ کا رکوع بھی قیام کے برابر سرابر تھا۔ پھر کہا؛ (سمع الله لمن حمده) (سنا اللہ نے جس نے اس کی تعریف کی۔) پھر دیر تک رکوع کرنے کے وقت کے قریب قریب کھڑے رہے۔ پھر سجدہ کیا اور کہا: (سبحان ربى الاعلى) (میرا رب پاک ہے بلندی والا۔) اور آپ کا سجدہ بھی قیام کرنے کے وقت کے قریب قریب تھا۔
(مسلم، صلاۃ المسافرین، استحباب تطویل القراءۃ فی صلاۃ اللیل، ح: 772)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سورۃ النساء پڑھی اور پھر سورۃ آل عمران پڑھی جبکہ ترتیبِ قرآنی میں سورۃ آل عمران سورۃ النساء سے پہلے ہے۔
ایک حدیثِ تقریری اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ تلاوت میں سورتوں کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر جائز ہے۔ ایک انصاری (کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ) مسجدِ قبا میں امامت کرواتے تھے، وہ جب کوئی سورت شروع کرتے تو پہلے قل هو الله احد (سورۃ الاخلاص) پڑھ لیتے، اسے پڑھ لینے کے بعد وہ دوسری سورت اس کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔ وہ ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے۔ اس کے رفقاء نے اس پر اعتراض کیا اور کہنے لگے: آپ اس سورت یعنی قل هو الله احد کو شروع کرتے ہیں، پھر کیا یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سورت کافی نہیں تب دوسری سورت اس کے ساتھ ملاتے ہیں، آئندہ صرف سورت قل هو الله پڑھا کریں یا اسے چھوڑ کر دوسری سورت پڑھا کریں۔ اس نے کہا: میں تو قل هو الله چھوڑنے والا نہیں، اگر تم راضی ہو تو میں تمہاری امامت کرواؤں گا اور ناخوش ہو تو میں امامت چھوڑ دوں گا۔ جبکہ لوگ اسے اپنے سے بہتر جانتے تھے۔ (اس کے مقابلے میں) کسی دوسرے کی امامت انہیں پسند نہ تھی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان (اہل قبا) کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے یہ صورتِ حال آپ سے عرض کی، آپ نے اس سے پوچھا:
تو ایسا کیوں نہیں کرتا جیسے تیرے رفقاء کہتے ہیں اور کیا سبب ہے کہ تو نے قل هو الله کو ہر سورت میں لازم کر لیا ہے؟
اس نے جواب دیا: مجھے اس سورت سے محبت ہے۔ (کیونکہ اس میں رحمٰن کی صفت بیان ہوئی ہے۔) آپ نے فرمایا:
(حبك إياها أدخلك الجنة)(بخاري، الاذان، الجمع بین السورتین، ح: 774)
’’اس سورت کی محبت نے تجھے جنت دلا دی۔‘‘
صحابی مذکور کے مذکورہ عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند کیا ہے، لہذا سورۃ الفاتحہ کے بعد جو بھی سورت آپ تلاوت کریں اس سے پہلے سورت اخلاص پڑھ لیں تو جائز ہو گا، ترتیب کے اعتبار سے اگرچہ وہ سورت سورۃ الاخلاص سے پہلے ہی کیوں نہ ہو۔
ایک صحابی احنف بن قیس رضی اللہ عنہ نے صبح کی پہلی رکعت میں سورۃ الکھف پڑھی اور دوسری میں سورۃ یوسف اور یونس۔ اور انہوں نے بتایا کہ انہو ں نے عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی تو انہوں نے یہی سورتیں پڑھی تھیں۔ (بخاری، الاذان، الجمع بین السورتین)
یہ بھی امر واقعہ ہے کہ نماز میں ہر شخص پہلے سورۃ الفاتحہ پڑھتا ہے اور اس کے بعد کوئی دوسری سورت یا سورتیں ملاتا ہے۔ پھر جب دوسری رکعت کا آغاز کرتا ہے تو پھر سورۃ الفاتحہ پڑھتا ہے حالانکہ سورۃ الفاتحہ کے بعد والی سورتیں وہ پہلے پڑھ چکا ہوتا ہے۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت سورتوں کی ترتیب کے مطابق پڑھنا ضروری نہیں۔
ایک آدمی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے تو آج رات مفصل کی ساری سورتیں ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں۔ اس پر آپ نے فرمایا:
جیسے جلدی جلدی شعر پڑھتا ہے ویسے پڑھ گیا! میں ان جوڑ جوڑا سورتوں کو جانتا ہوں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر (ایک ایک رکعت میں) پڑھا کرتے تھے۔ پھر عبداللہ نے مفصل کی بیس سورتیں بیان کیں، ہر رکعت میں دو دو سورتیں۔ (ایضا، ح: 774)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا جس ترتیب سے یہ سورتیں قرآن مجید میں ہیں۔ ہر دو رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سورتیں تلاوت کیں جن کی ترتیب تلاوت یوں بنتی ہے:
پہلی دو رکعت: سورة الرحمن، النجم، القمر اور الحاقة۔
دوسری دو رکعت: الذاریات، الطور، الواقعة اور القلم۔
تیسری دو رکعت: المعارج، النازعات، المطففین اور عبس۔
چوتھی دو رکعت: المدثر، الزمل، الدھر اور البلد۔
پانچویں دو رکعت: النبا، المرسلات، التکویر اور الدخان۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب