السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض قرآنی آیات میں تعارض دکھائی دیتا ہے۔ کیا قرآنی آیات میں باہم تضاد بھی ہوتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
درحقیقت قرآنی آیات میں کوئی تعارض و تناقض نہیں ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے منزل من اللہ ہونے کی دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے:
﴿ أَفَلا يَتَدَبَّرونَ القُرءانَ وَلَو كانَ مِن عِندِ غَيرِ اللَّهِ لَوَجَدوا فيهِ اختِلـٰفًا كَثيرًا ﴿٨٢﴾... سورة النساء
’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘
اس لیے یہ محال ہے کہ قرآن مجید کی آیات میں باہم تضاد ہو۔ بالخصوص جب آیات میں کوئی خبر بیان کی گئی ہو کیونکہ ایسی صورت میں ایک بات تو یقینا جھوٹ ہو گی جب کہ اللہ تو "اصدق" (سب سے زیادہ سچا) ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَن أَصدَقُ مِنَ اللَّهِ حَديثًا ﴿٨٧﴾... سورة النساء
’’اور اللہ سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہو گا۔‘‘
ایک دوسری آیت میں یہ الفاظ ہیں:
﴿ وَمَن أَصدَقُ مِنَ اللَّهِ قيلًا ﴿١٢٢﴾... سورة النساء
’’اور کون ہے جو بات میں اللہ سے زیادہ سچا ہو۔‘‘
اگر ایسی دو آیات میں بظاہر کوئی تعارض دکھائی دے جن میں کوئی حکم دیا گیا ہو تو دریں صورت دوسری آیت پہلی آیت کے حکم کی ناسخ (منسوخ کرنے والی) ہوتی ہے۔ اس طرح پہلی آیت کا حکم باقی نہیں رہتا لہذا وہ دوسری آیت کے حکم کے خلاف نہیں ہوتی۔ نسخ کا عمل قرآن مجید سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ما نَنسَخ مِن ءايَةٍ أَو نُنسِها نَأتِ بِخَيرٍ مِنها أَو مِثلِها أَلَم تَعلَم أَنَّ اللَّهَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿١٠٦﴾... سورة البقرة
’’جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر بھرپورقادر ہے۔‘‘
وہ آایات جو ظاہری طور پر متضاد دکھائی دیتی ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
(هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ (البقرۃ: 2/2) قرآن ہی کے بارے میں ہے، دوسری آیت ہے: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ﴾(البقرۃ 2/185)) (ایضا: 85)
پہلی آیت کے مطابق قرآن مجید متقی لوگوں کے لیے ہدایت ہے جبکہ دوسری آیت کے مطابق قرآن کریم سب لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ ان آیات میں فی الحقیقت کوئی تضاد نہیں کیونکہ ہدایت کا ایک معنی راستے پر چلانا یا اس پر چلنے کی توفیق دینا ہے جبکہ ہدایت کا دوسرا معنی راستہ بتانا (راہ نمائی کرنا) اور واضح کرنا ہے، پہلی آیت میں ہدایت کا لفظ پہلے معنی میں جبکہ دوسری آیت میں دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بالفاظ دیگر قرآن مجید سب لوگوں کے لیے ہدایت ہے مگر اس سے ہدایت لینے اور راہنمائی حاصل کرنے کی توفیق انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو متقی ہیں۔ انہی دو آیات کی طرح اللہ تعالیٰ کے یہ دو فرامین ہین:
﴿إِنَّكَ لا تَهدى مَن أَحبَبتَ وَلـٰكِنَّ اللَّهَ يَهدى مَن يَشاءُ...﴿٥٦﴾... سورة القصص
’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘
﴿ وَإِنَّكَ لَتَهدى إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ ﴿٥٢﴾... سورةالشورىٰ
’’اور آپ راہِ راست کی ہدایت کرتے ہیں۔‘‘
پہلی آیت میں ہدایت سے مراد سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دینا ہے جبکہ دوسری آیت میں ہدایت سے مراد سیدھے راستے کی رہنمائی کرنا ہے۔
تقسیم وراثت کا حکم آنے سے پہلے مرنے والوں پر وصیت فرض تھی، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿كُتِبَ عَلَيكُم إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوتُ إِن تَرَكَ خَيرًا الوَصِيَّةُ...﴿١٨٠﴾... سورة البقرة
’’تم پر وصیت کرنا فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی فوت ہونے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو۔‘‘
﴿يوصيكُمُ اللَّهُ فى أَولـٰدِكُم لِلذَّكَرِ مِثلُ حَظِّ الأُنثَيَينِ...﴿١١﴾... سورة النساء
’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘
اس آیت سے وصیت کی فرضیت منسوخ ہو گئی۔ ظاہری طور پر ان دو آیات میں تضاد نظر آتا ہے مگر حقیقت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ مزید مثالوں کے لیے علامہ محمد امین شنقیطی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب دفع ايهام الاضطراب عن آي الكتاب کا مطالعہ کریں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب