سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) چپ رہنے کی نذر کی شرعی حیثیت

  • 23400
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 941

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ایک بھائی نے کسی مقبرے کے بارے میں نذر مانی کہ وہ وہاں پہنچنے تک کسی سے کوئی بات نہیں کرے گا اور اپنی زبان بالکل بند رکھے گا کیا اس طرح کی نذر ماننا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نذر کے بارے میں پہلی چیز تو یہ ہے کہ نذر صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ماننی چاہئے، دوسری بات یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کی نذر نہیں ماننی چاہئے جو شریعت میں جائز نہ ہو۔ معیصت (نافرمانی) کی نذر ماننا جائز نہیں۔ ہماری شریعت میں خاموش رہنے کی کوئی نذر ماننا جائز نہیں۔بلکہ اسے جاہلیت کا عمل قرار دیا ہے۔ قیس بن ابو حازم بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ احمس قبیلے کی ایک عورت کے پاس تشریف لائے جسے زینب کہا جاتا تھا۔ تو آپ نے اسے دیکھا کہ وہ  بولتی نہیں ہے، آپ نے پوچھا:

«ما لها لا تتكلم؟» فقالوا: حجت مصمتة، فقال لها:«تكلمى فان هذا لا يحل، هذا من عمل الجاهلية»فتكلمت)

’’یہ گفتگو کیوں نہیں کرتی لوگوں نے بتلایا کہ اس نے خاموش رہنے کا ارادہ کیا ہے۔ آپ نے اسے فرمایا: بات چیت کرو، اس لیے کہ یہ خاموشی جائز نہیں، یہ جاہلیت کا عمل ہے۔ تو اس نے بول چال شروع کر دی۔‘‘

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

(حفظت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((لا يتم بعد احتلام ولا صمات يوم الى الليل))) (ابوداؤد، الوصایا، ما جاء متی ینقطع الیتم، ح: 2873)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھا ہے کہ بالغ ہونے کے بعد یتیمی نہیں رہتی اور پورا دن خاموش رہنے کی کوئی حیثیت نہیں۔‘‘

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، اچانک آپ کی نظر ایک (دھوپ میں) کھڑے آدمی پر پڑی، آپ نے اس کے بارے میں پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ اس کا نام ابو اسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے کہ دھوپ میں کھڑا رہے گا، بیٹھے گا نہیں، نہ سایہ حاصل کرے گا اور نہ گفتگو ہی کرے گا اور وہ روزہ رکھے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مروه فليتكلم، وليستظل, وليقعد, وليتم صومه)(بخاري، الایمان والنذور، النذر فیما لا یملک وفی معصیة، ح: 6704)

’’اسے کہو کہ وہ گفتگو کرے، سایہ حاصل کرے اور بیٹھ جائے، البتہ اپنا روزہ پورا کرے۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاموش رہنے کی نذر ماننا جائز نہیں، نیز اگر ایسی نذر مان لی ہو تو اسے توڑ دینے کا حکم ہے اور اس کا کوئی کفارہ بھی نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو نذر توڑنے پر کفارہ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا۔ یاد رہے کہ مقبروں کی طرف سفر کرنا ناجائز ہے، اس اعتبار سے بھی یہ نذر باطل ہو گی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

شرک اور خرافات،صفحہ:116

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ