السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی مسئلے میں والدِ محترم سے میری گفتگو ہو رہی تھی کہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں نے عرض کیا کہ چلو خطیب صاحب سے مسئلہ پوچھ لیتے ہیں۔ میں اپنے والدِ محترم کو امام صاحب کے پاس لے گیا۔ جب میں نے صورتِ حال امام صاحب سے بیان کی تو اُن کے پاس بیٹھا ہوا ایک شخص کہنے لگا: تم نے اپنے ولد صاحب کی بے ادبی کی ہے کہ تم نے انہیں یہاں لانے پر اصرار کیا ہے۔ کیا اصرار کر کے انہیں امام کے پاس لے جانا اُن کی بے ادبی کے ذمرے میں آتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
والدین کا ادب و احترام کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ان کی خیرخواہی اور بہتری کا جذبہ ضرور دل میں موجزن ہونا چاہئے۔ والدین کو (ادب و احترام کے ساتھ) راہِ راست پر لانا بھی نیکی ہے۔
نیک نیتی کے ساتھ استفسار کی غرض سے والد کو عالم کے پاس لے جانا اُن کی بے ادبی کے زُمرے میں نہیں آتا۔ ابو یزید معن بن یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میرے باپ یزید نے کچھ دینار صدقے کے لیے نکالے اور وہ انہیں مسجد (مسجد نبوی) میں ایک آدمی کے پاس رکھ آئے (تاکہ وہ کسی محتاج کو دے دے۔) میں مسجد میں آیا تو میں نے وہ دینار لے لیے (کیونکہ میں ضرورت مند تھا۔) اور وہ لے کر آ گیا (والدِ محترم کو معلوم ہوا) تو انہوں نے کہا:
واللہ! میں نے تجھے دینے کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا۔ چنانچہ میں اپنے والد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا اور یہ جھگڑا آپ کے سامنے پیش کر دیا۔ آپ نے فرمایا:
(لك ما نويت يا يزيد ولك ما اخذت يا معن)(بخاري، الزکوٰة، اذا تصدق علی ابنه وھو لا یشعر، ح؛ 1422)
’’طیزید! تیرے لیے تیری نیت (کا ثواب) ہے، اور اے معن! تو نے جو لیا ہے وہ تیرے لیے (جائز) ہے۔‘‘
نوٹ: معن، اُن کے والد یزید اور دادا اخنس تینوں صحابی ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب