سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) سماعِ موتیٰ ثابت ہے؟

  • 23391
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1133

سوال

(21) سماعِ موتیٰ ثابت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اہل قبور سنتے ہیں؟ جب ہم قبرستان میں جا کر سلام کرتے ہیں تو کیا وہ سن کر جواب دیتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل قبور دنیا والوں کی باتیں نہیں سنتے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے:

﴿ وَما أَنتَ بِمُسمِعٍ مَن فِى القُبورِ ﴿٢٢﴾... سورة الفاطر

’’آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿فَإِنَّكَ لا تُسمِعُ المَوتىٰ... ﴿٥٢﴾... سورة الروم

’’آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے۔‘‘

سوئے ہوئے شخص کو سنانے کے لیے جگانا پڑتا ہے اور جو فوت ہی ہو جائے وہ کیونکر سنے گا۔ اس سلسلے میں اصحابِ کہف کا واقعہ ہی لے لیجیے، وہ تین سو نو سال سوئے رہے۔ (الکھف: 25) لیکن جب اٹھے تو کہنے لگے: ہم ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ (نیند کی حالت میں) رہے ہیں۔ (ایضا: 19)

309 سال کے عرصے میں آندھیاں بھی آئی ہوں گی، زلزلے بھی آئے ہوں گے، پرندے بھی چہچہائے ہوں گے اور درندے بھی دھاڑتے رہے ہون گے لیکن نہ تو ان اولیاءاللہ نے کچھ سنا اور نہ انہیں کچھ علم ہی تھا تبھی تو انہیں اپنے سونے کا دورانیہ معلوم نہیں تھا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نبی (عزیر علیہ السلام کو سو سال کے لیے موت دے دی، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کر کے پوچھا کہ کتنی مدت موت کے عالم میں رہے ہو تو وہ کہنے لگے:

﴿يَومًا أَو بَعضَ يَومٍ...﴿٢٥٩﴾... سورة البقرة

’’ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ۔‘‘

حالتِ موت میں انہوں نے کچھ سنا! قطعا نہیں۔

اسی طرح قیامت کے دن جب لوگ زندہ کیے جائیں گے تو وہ خواہ آدم علیہ السلام کے دور میں فوت ہوئے ہوں، کہیں گے:

ہم ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ(موت کے عالم میں) رہے۔ (المومنو: 113: طٰہ: 104)

بعض لوگوں کو والسلام عليكم وغیرہ الفاظ سے، جن سے قبر والوں کو مخاطب کیا گیا ہے، مغالطہ لگ گیا ہے۔ حالانکہ انہیں مخاطب کرنا قبروں کے سامنے ہونے کی وجہ سے ہے، یہ سمعِ موتیٰ کی دلیل نہیں۔ امام طحاوی فرماتے ہیں:

(ان الميت لا يخاطب بالسلام لانه ليس اهلا للخطاب ۔۔ المقصود منه الدعاء لا الخطاب) (شرح مراقی الفلاح: ص: 331)

’’سلام سے میت کو مخاطب نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ تو خطاب کی اہل ہی نہیں ہوتی ۔۔ اس سے مقصود صرف دعا ہے نہ کہ خطاب۔‘‘

اگر مخاطب کرنے سے سننا ثابت ہوتا ہو تو پھر تو بہت سی ایسی چیزوں کے سننے کو ماننا پڑے گا کہ جن کے سننے کا کوئی بھی قائل نہیں۔ اسے ہم قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں:

قرآن کریم میں (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا)، (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا)، (يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ)، (يبنى اسرءيل)، (يفرعون)، وغیرہ الفاظ حکایتا پڑھے جاتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ جب ہم یہ الفاظ بولتے ہیں تو اہل ایمان اور کفار وغیرہ حاضر ہوتے ہیں یا سن رہے ہوتے ہیں۔

ایک دفعہ موسیٰ علیہ السلام غسل کر رہے تھے، ایک پتھر پر انہوں نے کپڑے رکھے ہوئے تھے، وہ پتھر کپڑوں سمیت بھاگ گیا۔ آپ اس کے پیچھے بھاگے اور فرمایا:

(يا حجر ثوبى) (بخاري، الغسل، من اغتسل وحدہ فی الخلوة، ح: 278)

’’پتھر! میرے کپڑے (چھوڑ دے)‘‘

خلیفہ ثانی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو مخاطب ہو کر فرمایا:

(والله إني لأعلم أنك حجر ، لا تضر ولا تنفع ، ولولا أني رأيت رسول الله قبلك ما قبلتك)(بخاري، الحج، ما ذکر فی الحجر الاسود، ح: 1597، مسلم، الحج، استحباب تقبیل الحجر ۔۔ ح: 1270)

’’اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے، تو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے اللہ کے رسول کو نہ دیکھا ہوتا کہ تجھے بوسہ دے رہے ہیں تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘

تو کیا پتھروں کو مخاطب کرنے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پتھر بھی سنتے ہیں؟

ہلال دیکھ کر پڑھنے کی دعا میں چاند کو اِن الفاظ سے مخاطب کیا جاتا ہے:

(ربى و ربك الله)(ترمذي، الدعوات، ما یقول عند رویة الھلال، ح: 3451)

اس کی سند میں سلیمان بن سفیان اور بلال بن یحییٰ بن طلحہ ضعیف راوی ہیں، نیز اس کے شواہد بھی ضعیف ہی ہیں۔ محمد ارشد کمال)

"میرا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔‘‘

تو کیا چاند بھی سنتا ہے؟

ایک معرکے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہو گئی، آپ نے انگلی سے مخاطب ہو کر فرمایا:

(هل أنت إلا أصبع دميت وفي سبيل الله ما لقيت)(بخاري، الجھاد، من ینکب او یطعن فی سبیل اللہ، ح: 2802، مسلم، الجھاد، ما لقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اذی المشرکین ۔۔ ح: 1796)

’’تو تو ایک انگلی ہے جو خون آلود ہو گئی ہے، یہ تکلیف تجھے اللہ کی راہ میں پہنچی ہے۔‘‘

تو کیا اعضائے انسانی بھی سنتے ہیں؟

ان مثالوں سے اہلِ قبور کے سماع کے بارے میں کیے جانے والے استدلال کی غلطی واضح ہو جاتی ہے۔ مذکورہ بالا مثالوں سے عیاں ہوا کہ کسی چیز کو محض مخاطب کرنا اس کے سننے کی دلیل نہیں ہوتا۔

سوال کا دوسرا حصہ سوال سن کر اہلِ قبور کے جواب دینے سے متعلق ہے۔ قبر والوں کو سلام ان کے حق میں خیروبرکت کی دعا ہے۔ یہ انہیں سنانے اور جواب لینے کے لیے نہیں ہوتا اور نہ اس کا کوئی جواب بنتا ہے۔

اگر قبر والے ہماری بات سن سکتے ہیں تو اپنی بات ہم تک پہنچانے کی ان میں کیوں صلاحیت نہیں؟

مزید برآں سلام کے کتنے ہی ایسے مواقع ہیں جہاں پر سلام صرف خیروبرکت اور سلامتی کی دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے فرشتوں کا اہلِ جنت کو (سلام عليكم) کہنا۔ (الرعد: 24، النحل:32، الزمر: 73)

نمازکے آخر میں سلام کسے کیا جاتا ہے؟ کیا اس کا کوئی جواب دیتا ہے؟ اکیلا نمازی بھی یہی الفاظ کہتا ہے۔

(السلام عليك ايها النبى) کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جواب نہیں دیا تھا، بلکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی الفاظ پڑھتے تھے۔

عیسیٰ علیہ السلام نے خود اپنے آپ پر سلام کیا تھا۔ (مریم: 33) ہم بھی نماز میں اپنے آپ پر (السلام علينا کے الفاظ سے) سلام کہتے ہیں۔ نیز وعلى عباد الله الصالحين بھی کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی نے اس کا جواب دیا ہے یا جواب کے متعلق سوچا ہے؟

اہل قبور کے لیے (يرحم الله المستقدمين منا والمستاخرين وانا ان شاء الله بكم للاحقون) اور (اسال الله لنا ولكم العافية) کے الفاظ قبرستان میں جانے کے مقاصد کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ قبرستان کی زیارت کے موقع پر درج ذیل دعائیں مسنون ہیں:

(السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم الله المستقدمين منا والمستاخرين وانا ان شاء الله بكم للاحقون)(مسلم، الجنائز، ما یقال عند دخول القبور ۔۔۔ ح: 974، نسائی: 2037، مسند احمد 6/221)

’’ان گھروں میں رہنے والے مومنو! اور مسلمانو! تم پر سلام ہو، اللہ ہم میں سے پہلے پہنچنے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحمت کرے اور ہم بھی، ان شاءاللہ، تم سے ملنے والے ہیں۔‘‘

(السَّلامُ عَلَيكُمْ أَهْل الدِّيارِ مِنَ المُؤْمِنِينَ والمُسْلِمِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاَحِقُونَ ، أَسْأَلُ اللَّه لَنَا وَلَكُمُ العافِيَةَ)(مسلم، الجنائز، ما یقال عند دخول القبور ۔۔۔ ح: 975)

’’ان گھروں والے مومنو! مسلمانو! تم پر سلام ہو، ہم بھی، ان شاءاللہ، تم سے ملنے والے ہیں۔ میں اپنے اور تمہارے لیے اللہ سے عافیت مانگتا ہوں۔‘‘

جب سلام سے مقصود اہلِ قبور کو سنانا نہیں اور نہ وہ سنتے ہی ہیں تو جواب دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو سنتے ہی نہیں وہ جواب کیا دیں گے! ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّما يَستَجيبُ الَّذينَ يَسمَعونَ وَالمَوتىٰ يَبعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيهِ يُرجَعونَ ﴿٣٦﴾... سورة الانعام

’’وہی لوگ قبول کرتے ہیں (جواب دیتے ہیں) جو سنتے ہیں۔ اور مُردوں کو تو اللہ زندہ کر کے اٹھائے گا پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘

جنہیں لوگ پکارتے ہیں وہ روزِ قیامت صاف صاف اعلان کر دیں گے کہ ہم تو تمہاری پکار سے بے خبر تھے، اور یہ بھی ہے کہ وہ قیامت تک جواب نہیں دے سکتے، وہ تو اس سے بھی بے خبر ہیں کہ دوبارہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (یونس: 29، الاحقاف: 5-6، النحل: 30-31)

وہ دنیا والوں کی کیا سنیں گے اور کیا جواب دیں گے!

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

شرک اور خرافات،صفحہ:88

محدث فتویٰ

تبصرے