السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسلمان ایک پتھر (حجرِ اسود) کو کیوں چومتے ہیں؟ اس پتھر کی کیا حیثیت ہے؟ کیایہ درست ہے کہ یہ پتھر جنت سے آیا ہے؟ حجرِ اسود کے بوسے کو بنیاد بنا کر کیا نیک لوگوں کی قبروں کو چوما جا سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حجراسود کو چوم کر یا ہاتھ لگا کر طواف شروع کرنا مسنون ہے۔ اتباع سنت میں ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس پتھر کو چومتے رہے ہیں جیسا کہ خلیفہ ثانی کا مشہور فرمان اور عمل ہے کہ وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا:
(إني لأعلم أنك حجر ، لا تضر ولا تنفع ، ولولا أني رأيت رسول الله قبلك ما قبلتك) (بخاری، الحج، ما ذکر فی الحجر الاسود، ح: 1597)
’’میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘
اس روایت کی روشنی میں مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ نے درج ذیل تفصیل بیان کی ہے:
حجرِ اسود وہ کالا پتھر ہے جو کعبہ کے مشرقی کونے میں لگا ہوا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حجرِاسود جنت کا پتھر ہے۔ پہلے وہ دودھ کی طرح سفید تھا پھر لوگوں کے گناہوں نے اسے کالا کر دیا۔ حاکم (457/1) کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: اے امیر المومنین! یہ پتھر بگاڑ ور فائدہ کر سکتا ہے، قیامت کے دن اس کی آنکھیں، زبان اور ہونٹ ہوں گے اور وہ گواہی دے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: بوالحسن! جہاں تم نہ ہو وہاں اللہ مجھے نہ رکھے۔ ذہبی نے کہا کہ حاکم کی روایت ساقط ہے۔ (یہ روایت صحیح نہیں، اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی تو زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہو سکتا تھا کہ حجرِ اسود کو چومنے کی وجہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اجروثواب عطا کریں گے اور حجراسود سے گواہی دلوائیں گے۔ شہباز حسن) خود مرفوع حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجراسود کو بوسہ دیتے وقت ایسا ہی فرمایا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ (اخرجہ ابن ابی شیبۃ)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تجھے بوسہ دینا محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی نیت سے ہے۔
اس روایت سے صاف نکلا کہ قبروں کی چوکھٹ چومنا یا قبروں کی زمین چومنا یا خود قبر کو چومنا یہ سب ناجائز کام ہیں بلکہ بدعاتِ سیئہ ہیں۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجرسود کو صرف اس لیے چوما کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چوما تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے کہیں منقول نہیں کہ انہوں نے قبر کو بوسہ دیا ہو۔ یہ سب کام جاہلوں نے نکالے ہیں اور شرک ہیں کیونکہ جن کی قبروں کو چومتے ہیں انہیں اپنے نفع و نقصان کا مالک گردانتے ہیں اور شرک ان کے نام کی دہائی دیتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ لہذا شرک ہونے میں کیا کلام ہے۔ کوئی خالص محبت سے چومے تو یہ بھی غلط اور بدعت ہو گا۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھم سے کہیں کسی قبر کو چومنے کا ثبوت نہیں ہے۔
مولانا محمد داؤد راز لکھتے ہیں:
یہ وہ تاریخی پتھر ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مبارک جسموں سے مَس ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جس وقت خانہ کعبہ کی عمارت بن چکی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ ایک پتھر لاؤ تاکہ اسے ایسے مقام پر لگا دوں جہاں سے طواف شروع کیا جائے۔ تاریخِ مکہ میں ہے:
(فقال ابراهيم لاسماعيل عليه السلام يا اسماعيل ايتنى بحجر اضعه حتى يكون علما للناس يبتدون منه الطواف ۔۔)
بعض روایات کی بنا پر اس پتھر کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے ہبوط کے ساتھ ساتھ شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ طوفانِ نوح کے وقت یہ پتھر بہہ کر کواہِ ابوقبیس پر چلا گیا تھا۔ اس موقع پر کواہِ ابوقبیس سے صدا بلند ہوئی کہ اے ابراہیم! یہ امت ایک مدت سے میرے سپرد ہے۔ آپ نے وہاں سے اس پتھر کو حاصل کر کے کعبہ کے ایک کونے میں نصب کر دیا اور کعبہ شریف کا طواف کرنے کے لیے اسے شروع کرنے اور ختم کرنے کا مقام ٹھہرایا۔
حاجیوں کے لیے حجراسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا یہ کام مسنون اور کارِ ثواب ہے۔ قیامت کے دن یہ پتھر ان لوگوں کی گواہی دے گا جو اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور اسے ہاتھ لگا کر حج یا عمرہ کی شہادت ثبت کراتے ہیں۔
بعض روایات کی بنا پر عہدِ ابراہیمی میں پیمان لینے کا یہ عام دستور تھا کہ ایک پتھر رکھ دیا جاتا جس پر لوگ آ کر ہاتھ مارتے۔ اس کے معنیٰ یہ ہوتے کہ جس عہد کے لیے وہ پتھر گاڑا گیا ہے اسے انہوں نے تسلیم کر لیا ہے بلکہ اپنے دلوں میں اس پتھر کی طرح مضبوط گاڑ لیا، اسی دستور کے موافق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مقتدیٰ قوموں کے لیے یہ پتھر نصب کیا تاکہ جو شخص بیت اللہ شریف میں داخل ہو اِس پتھر پر ہاتھ رکھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے توحیدِ الہٰی کے بیان کو قبول کر لیا۔ اگر جان بھی دینی پڑے گی تو اس سے منحرف نہ ہو گا، گویا حجراسود کا استلام اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنا ہے۔ اس کی تمثیل کی تصریح ایک حدیث میں یوں آئی ہے:
(عن ابن عباس مرفوعا الحجر الاسود يمين الله فى ارضه يصافح به خلقه (طبراني))
’’حضرت ابن عباس سے مرفوعا روایت ہے کہ حجراسود زمین میں گویا اللہ کا دایاں ہاتھ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مصافحہ کرتا ہے۔‘‘
حضرت ابن عباس کی دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:
(نزل الحجر الأسود من الجنة وهو أشد بياضاً من اللبن فسودته خطايا بني آدم)(ترمذي، الحج، ماجاء فی فضل الحجر الاسود، ح: 877)
’’حجراسود جنت سے نازل ہوا تو وہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا مگر انسانوں کی خطا کاریوں نے اسے سیاہ کر دیا۔‘‘
اس سے حجراسود کی شرافت و بزرگی مراد ہے۔
’’ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس تاریخی پتھر کو نطق اور بصارت سے سرفراز کرے گا، جن لوگوں نے حقانیت کے ساتھ توحیدِ الہٰی کا عہد کرتے ہوئے اسے چوما ہے ان کے حق میں یہ گواہی دے گا۔‘‘ (ترمذي، الحج، ماجاء فی الحجر الاسودِ ح: 961)
ان فضائل کے باوجود کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں کہ یہ پتھر معبود ہے، یا اس کے اختیار میں نفع و ضرر ہے۔
حضرت عمر کے تاریخی الفاظ (جو صحاح ستہ اور مسند احمد میں موجود ہیں، جنہیں صحیح بخاری کے حوالے سے پیچھے ذکر کیا گیا ہے) کے بارے میں علامہ طبری مرحوم لکھتے ہیں:
(إنما قال ذلك عمر لأن الناس كانوا حديثي عهد بعبادة الأصنام ، فخشي عمر أن يظن الجهال أن استلام الحجر من باب تعظيم بعض الأحجار كما كانت العرب تفعل في الجاهلية ، فأراد عمر أن يعلم الناس أن استلامه اتباع لفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ، لا لأن الحجر ينفع ويضر بذاته كما كانت الجاهلية تعتقده في الأوثان (فتح الباری))
’’حضرت عمر نے یہ اعلان اس لیے کیا کہ اکثر لوگ بت پرستی سے نکل کر قریبی زمانے میں اسلام کے اندر داخل ہوئے تھے۔ حضرت عمر نے اس خطرے کو محسوس کر لیا کہ جاہل لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق پتھروں کی تعظیم ہے۔ اس لیے آپ نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ حجراسود کا استلام صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کیا جاتا ہے ورنہ حجر اسود اپنی ذات میں نفع و نقصان پہنچانے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا، جیسا کہ اہل جاہلیت کے لوگ بتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے تھے۔‘‘
ابن ابی شیبہ اور دارقطنی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بھی یہی الفاظ نقل کیے ہیں کہ آپ نے بھی حجر اسود کے استلام کے وقت یوں فرمایا
’’میں جانتا ہوں کہ تیری حقیقت ایک پتھر سے زیادہ کچھ نہیں۔ نفع یا نقصان کی کوئی طاقت تیرے اندر نہیں ہے۔ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘ (العلل للدارقطنی 167/1)
بعض محدثین نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’میں جانتا ہوں کہ توایک پتھر ہے جس میں نفع و نقصان کی تاثیر نہیں ہے۔ اگر مجھے میرے رب کا حکم نہ ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘
اسلامی روایت کی روشنی میں حجراسود کی حیثیت ایک تاریخی پتھر کی ہے جسے اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام نے خانہ خدا کی تعمیر کے وقت ایک ’’بنیادی پتھر‘‘ کی حیثیت سے نصب کیا۔ اس لحاظ سے دینِ حنیف کی ہزار ہا سالہ تاریخ اس پتھر کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہے۔ اہل اسلام اس کی جو بھی تعظیم استلام وغیرہ کی طرح کرتے ہیں وہ سب کچھ صرف اسی بنا پر ہے۔ ملتِ ابراہیمی کے اللہ کے ہاں مقبول ہونا اور مذہبِ اسلام کی حقانیت پر بھی یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے جسے ہزار ہا سال کے بے شمار انقلابات فنا نہ کر سکے۔ وہ جس طرح ہزاروں برس پہلے نصب کیا گیا تھا، آج اسی شکل میں اسی جگہ تمام دنیا کے حوادث کا مقابلہ کرتے ہوئے موجود ہے۔ اسے دیکھنے سے، اسے چومنے سے ایک سچے مسلمان موحد کی نظروں کے سامنے دینِ حنیف کے چار ہزار سالہ تاریخی اوراق یکے بعد دیگرے الٹنے لگ جاتے ہیں۔ حضرت خلیل اللہ اور حضرت ذبیح اللہ علیہم السلام کی پاک زندگیاں سامنے آ کر معرفتِ حق کی نئی نئی راہیں دماغوں کے سامنے کھول دیتی ہیں۔ روحانیت وجد میں آ جاتی ہے۔ توحید پرستی کا جذبہ جوش مارنے لگتا ہے۔ حجراسود بنائے توحید کا ایک بنیادی پتھر ہے۔ ’’دعائے خلیل و نوید مسیحا‘‘ حضرت سید الانبیاء کی صداقت کے اظہار کے لیے ایک غیرفانی یادگار ہے۔ اس مختصر سے تبصرے کے بعد کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشیں کر لینا چاہئے کہ مصنوعاتِ الٰہیہ میں جو چیز بھی محترم ہے وہ بالذات محترم نہیں ہے بلکہ پیغمبرِ اسلام کی تعلیم و ارشاد کی وجہ سے محترم ہے۔ اسی کلیہ کے تحت خانہ کعبہ، حجراسود، صفا ومروہ وغیرہ محترم قرار پائے۔ اسی لیے اسلام کا کوئی فعل بھی، جسے وہ عبادت یا لائقِ عظمت قرار دیتا ہو، ایسا نہیں ہے جس کی سند سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسطے سے حق تعالیٰتک نہ پہنچتی ہو۔ اگر کوئی مسلمان ایسا فعل ایجاد کرے جس کی سند پیغمبر علیہ السلام تک نہ پہنچتی ہو تو وہ فعل نظروں میں کیسا ہی پیارا اور عقل کے نزدیک کتنا ہی مستحسن کیوں نہ ہو، اسلام فورا اس پر بدعت ہونے کا حکم لگا دیتا ہے اور صرف اس لیے اسے نظروں سے گرا دیتا ہے کہ اس کی سند حضرت رسولِ خدا تک نہیں پہنچتی بلکہ وہ ایک غیر ملہم انسان کا ایجاد کیا ہوا فعل ہے۔
اسی پاک تعلیم کا ثر ہے کہ سارا کعبہ باوجودیکہ ایک گھر ہے مگر حجراسود اور رکن یمانی و ملتزم پر پیغمبرِ اسلام علیہ السلام نے جو طریقِ استلام یا چمٹنے کا بتایا ہے مسلمان اس سے انچ بھر آگے نہیں بڑھتے۔ نہ دوسری دیواروں کے پتھروں کو چومتے ہیں کیونکہ مسلمان مخلوقاتِ الٰہیہ کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد و عمل کے تابع ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب