سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(8) کفار سے دوستی اور ان کی عزت و تکریم؟

  • 23378
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2692

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کفار سے دوستی اوران کی عزت و تکریم کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کفار سے دوستی کرنا جائز نہیں اور ان کی عزت و تکریم کرنا بھی منع ہے۔ عزت دینا دوستی کا حصہ ہے اور کفار سے دوستی کرنا منع ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل آیات کا مطالعہ کیجیے:

(1)۔﴿لا يَتَّخِذِ المُؤمِنونَ الكـٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ وَمَن يَفعَل ذ‌ٰلِكَ فَلَيسَ مِنَ اللَّهِ فى شَىءٍ ... ﴿٢٨﴾... سورة آل عمران

’’مومنوں کو چاہئے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی حمایت میں نہیں۔‘‘

مگر وہ مسلمان جو کسی کافر حکومت میں رہتے ہوں اور ان کے لیے کفار کے شر سے بچنا کفار سے اظہار دوستی کے بغیر ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر ایسا کر سکتے ہیں جیسا کہ آیت کے الفاظ ﴿إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً﴾سے ظاہر ہوتا ہے۔

(2) ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا الكـٰفِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ ....﴿١٤٤﴾... سورة النساء

’’ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ۔‘‘

(3)﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا اليَهودَ وَالنَّصـٰرىٰ أَولِياءَ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَإِنَّهُ مِنهُم ...﴿٥١﴾... سورةالمائدة

’’ایمان والو! تم یہودونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے دوستی کرے وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے۔‘‘

(4) ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا الَّذينَ اتَّخَذوا دينَكُم هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم وَالكُفّارَ أَولِياءَ ...﴿٥٧﴾... سورةالمائدة

’’مومنو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں، وہ ان میں سے ہوں جو پہلے کتاب دیے گئے ہیں یا (دیگر) کفار ہوں۔‘‘

(5) ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ... ﴿١﴾... سورة الممتحنة

’’ایمان والو! میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔‘‘

(6)﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا ءاباءَكُم وَإِخو‌ٰنَكُم أَولِياءَ إِنِ استَحَبُّوا الكُفرَ عَلَى الإيمـٰنِ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٢٣﴾... سورةالتوبة

’’ایمان والو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی اُن سے محبت رکھیں وہی ظالم ہے۔‘‘

(7) غیر مسلموں سے دوستی اللہ جل جلالہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر ایمان کے منافی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَو كانوا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِىِّ وَما أُنزِلَ إِلَيهِ مَا اتَّخَذوهُم أَولِياءَ ... ﴿٨١... سورة المائدة

’’اگر انہیں اللہ پر، نبی پر اور اُس پر جو آپ پر نازل ہوا ہے، ایمان ہوتا تو یہ اُن (کفار) سے دوستی نہ کرتے۔‘‘

مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے دوستی کرنے سے سختی سے منع کرتا ہے۔ کفار خواہ یہودونصاریٰ ہوں یا کوئی اور۔ وہ اللہ اور اہل اسلام کے دشمن ہیں، خواہ اُن کے آباء و اجداد اور بھائی ہی کیوں نہ ہوں، جو اُن سے دوستی کرے گا وہ ظالم انہی میں شمار ہو گا۔

 بھلا یہ کیسے روا ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے دین کا تمسخر اڑاتے ہوں، اللہ تعالیٰ کی آیات میں کیڑے نکالتے ہوں، مسلمانوں کے خلاف برسرِپیکار ہوں، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں، انہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہوں، مسلمانوں کے خلاف ہر حربہ اختیار کر رہے ہوں اور یہ نگوڑے ان سے دوستیاں کرتے پھریں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿إِنَّما يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ قـٰتَلوكُم فِى الدّينِ وَأَخرَجوكُم مِن دِيـٰرِكُم وَظـٰهَروا عَلىٰ إِخراجِكُم أَن تَوَلَّوهُم وَمَن يَتَوَلَّهُم فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٩﴾... سورة الممتحنة

شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ اقتضاء الصراط المستقیم میں فرماتے ہیں کہ دوستی عزت و امانت کا مقام ہے اور کافر ذلت اور خیانت کے مستحق ہیں اور اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو اُن سے بے نیاز رکھا ہے، لہذا انہیں ایسی ذمہ داری دینا جائز نہیں جس کی وجہ سے انہیں مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام، فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه.)(مسلم، السلام، النھی رن ابتداء اھل الکتاب بالسلام ۔۔ ح: 2167)

’’یہودونصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور جب تم اُن میں سے کسی کو کسی راستہ پر ملو تو اسے تنگ راستے پر چلنے پر مجبور کرو۔‘‘

معلوم ہوا کہ جو عزت و تکریم ایک مسلم کو حاصل ہے وہ ایک کافر کو ہرگز حاصل نہیں ہے۔ راہ چلتے ہوئے اگر آپ ایک مسلمان کو کھلا راستہ دیتے ہیں تو ان اہل کتاب سے ایسا سلوک نہ کیا جائے۔ مسلم کو غیر مسلم پر ترجیح حاصل ہے۔

جو کفار دین کی بنیاد پر اہل اسلام سے نہیں لڑتے اور نہ انہوں نے کبھی مسلمانوں کو ان کے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہو اور نہ دیگر کفار کی مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی مدد کرتے ہوں تو ایسے کافروں سے سلوک و احسان کرنے کا معاملہ کرنے کی اسلام اجازت دیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيـٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم ...﴿٨﴾... سورة الممتحنة

’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا۔ ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تمہیں نہیں روکتا۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

توحید باری تعالیٰ،صفحہ:54

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ