السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل بعض لوگ کفارومشرکین کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ ان کے اخلاق اور نیکی کی تعریف کرتے ہیں تو کیا کفار کو اُن کی نیکی کا فائدہ ہوتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اچھے کام کو اچھا کہنا چاہئے، دوسری بات یہ ہے کہ نیکی کرنے والا کوئی بھی ہو اسے یقینا کسی نہ کسی اعتبار سے فائدہ ہوتا ہے۔ مسلمان کو دنیا کے فائدے کے ساتھ ساتھ آخرت کا فائدہ بطورِ خاص حاصل ہوتا ہے۔ البتہ کفار کو اُن کے نیک اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہو تو انہیں شہرت بھی مل جاتی ہے۔ مال و دولت کی ریل پیل ہو جاتی ہے۔ دنیا میں عزت اور وقار بھی مل سکتا ہے۔ مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقَدِمنا إِلىٰ ما عَمِلوا مِن عَمَلٍ فَجَعَلنـٰهُ هَباءً مَنثورًا ﴿٢٣﴾... سورة الفرقان
’’اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا۔‘‘
ایک اور آیت میں کفار کے اعمال کو راکھ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَثَلُ الَّذينَ كَفَروا بِرَبِّهِم أَعمـٰلُهُم كَرَمادٍ اشتَدَّت بِهِ الرّيحُ فى يَومٍ عاصِفٍ لا يَقدِرونَ مِمّا كَسَبوا عَلىٰ شَىءٍ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلـٰلُ البَعيدُ ﴿١٨﴾... سورة ابراهيم
’’ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا، ان کے اعمال اس راکھ کی مانند ہیں جس پر تیز ہوا آندھی والے دن چلے، جو بھی انہوں نے کیا اس میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے، یہی دُور کی گمراہی ہے۔‘‘
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے کفار کے اعمال کو سراب (دھوپ میں چمکتی ہوئی ریت جو دُور سے پانی معلوم ہوتی ہے) اور اندھیروں کی مانند قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذينَ كَفَروا أَعمـٰلُهُم كَسَرابٍ بِقيعَةٍ يَحسَبُهُ الظَّمـٔانُ ماءً حَتّىٰ إِذا جاءَهُ لَم يَجِدهُ شَيـًٔا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفّىٰهُ حِسابَهُ وَاللَّهُ سَريعُ الحِسابِ ﴿٣٩﴾ أَو كَظُلُمـٰتٍ فى بَحرٍ لُجِّىٍّ يَغشىٰهُ مَوجٌ مِن فَوقِهِ مَوجٌ مِن فَوقِهِ سَحابٌ ظُلُمـٰتٌ بَعضُها فَوقَ بَعضٍ إِذا أَخرَجَ يَدَهُ لَم يَكَد يَرىٰها وَمَن لَم يَجعَلِ اللَّهُ لَهُ نورًا فَما لَهُ مِن نورٍ ﴿٤٠﴾... سورة النور
’’کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں ہو جسے پیاسا (دُور سے) پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے، اللہ بہت جلد حساب کر دینے والا ہے۔ یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ہو، پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں، (الغرض) اندھیرے ہیں جو اُوپر تلے پے در پے ہیں، جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ سکے، اور (بات یہ ہے کہ) جسے اللہ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی۔‘‘
روز قیامت کفار کے اعمال کا کوئی وزن نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل هَل نُنَبِّئُكُم بِالأَخسَرينَ أَعمـٰلًا ﴿١٠٣﴾ الَّذينَ ضَلَّ سَعيُهُم فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا وَهُم يَحسَبونَ أَنَّهُم يُحسِنونَ صُنعًا ﴿١٠٤﴾ أُولـٰئِكَ الَّذينَ كَفَروا بِـٔايـٰتِ رَبِّهِم وَلِقائِهِ فَحَبِطَت أَعمـٰلُهُم فَلا نُقيمُ لَهُم يَومَ القِيـٰمَةِ وَزنًا ﴿١٠٥﴾... سورة الكهف
’’کہہ دیجیے کہ کیا میں تمہیں بتا دوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ ہیں جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا، اس لیے ان کے اعمال غارت ہو گئے پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔‘‘
کفار کو اُن کے اچھے اعمال کا بدلہ آخرت میں نہیں ملے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمِنَ النّاسِ مَن يَقولُ رَبَّنا ءاتِنا فِى الدُّنيا وَما لَهُ فِى الءاخِرَةِ مِن خَلـٰقٍ ﴿٢٠٠﴾... سورة البقرة
’’بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘
اسی بات کو ایک اور سورت میں یوں بیان فرمایا:
﴿مَن كانَ يُريدُ حَرثَ الءاخِرَةِ نَزِد لَهُ فى حَرثِهِ وَمَن كانَ يُريدُ حَرثَ الدُّنيا نُؤتِهِ مِنها وَما لَهُ فِى الءاخِرَةِ مِن نَصيبٍ ﴿٢٠﴾... سورة الشورىٰ
’’جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دیں گے، ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘
ایک مقام پر یوں فرمایا:
﴿مَن كانَ يُريدُ الحَيوٰةَ الدُّنيا وَزينَتَها نُوَفِّ إِلَيهِم أَعمـٰلَهُم فيها وَهُم فيها لا يُبخَسونَ ﴿١٥﴾ أُولـٰئِكَ الَّذينَ لَيسَ لَهُم فِى الءاخِرَةِ إِلَّا النّارُ وَحَبِطَ ما صَنَعوا فيها وَبـٰطِلٌ ما كانوا يَعمَلونَ ﴿١٦﴾... سورة هود
’’جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو اُن کے اعمال (کا بدلہ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہو گا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کے اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں۔‘‘
ایک اور آیت میں فرمایا:
﴿مَن كانَ يُريدُ العاجِلَةَ عَجَّلنا لَهُ فيها ما نَشاءُ لِمَن نُريدُ ثُمَّ جَعَلنا لَهُ جَهَنَّمَ يَصلىٰها مَذمومًا مَدحورًا ﴿١٨﴾... سورة الإسراء
’’جس کا ارادہ صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائدہ) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لیے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لیے ہم جہنم مقرر کر دیتے ہیں جہاں وہ برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہو گا۔‘‘
البتہ جو لوگ ایمان کی بنیاد پر نیک اعمال کریں انہیں آخرت میں بھی ان کے اعمال کا فائدہ ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن أَرادَ الءاخِرَةَ وَسَعىٰ لَها سَعيَها وَهُوَ مُؤمِنٌ فَأُولـٰئِكَ كانَ سَعيُهُم مَشكورًا ﴿١٩﴾... سورةالإسراء
’’اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لیے ہونی چاہئے وہ کرتا بھی ہو اور وہ مومن بھی ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں (پوری) قدر کی جائے گی۔‘‘
ہاں ایسے کفار جنہوں نے کفر کی حالت میں کچھ اعمال کیے اور بعد میں مسلمان ہو گئے ان کے حالت کفر کے نیک اعمال رائیگاں و بیکار نہیں جائیں گے بلکہ انہیں ان کے نامہ اعمال میں شامل کیا جائے گا۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا:
يا رسول الله أرأيت أشياء كنت أتحنث بها في الجاهلية من صدقة أو عتاقة وصلة رحم فهل فيها من أجر فقال النبي صلى الله عليه وسلم أسلمت على ما سلف من خير(بخاري، الزکوٰۃ، من تصدق فی الشرک ثم اسلم، ح: 1436)
’’اللہ کے رسول! مجھے ان کاموں کے بارے میں بتائیں جنہیں میں زمانہ جاہلیت میں نیکی سمجھ کر کیا کرتا تھا۔ مثلا صدقہ کرنا، غلام آزاد کرنا اور صلہ رحمی (وغیرہ) تو کیا ان کاموں کا مجھے اجر ملے گا؟" تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے اپنی سابقہ نیکیوں سمیت اسلام قبول کیا ہے۔‘‘
اس حدیث کی تشریح میں مولانا محمد داؤد راز رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
امام بخاری نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر کافر مسلمان ہو جائے تو کفر کے زمانہ کی نیکیوں کا بھی ثواب ملے گا۔ یہ اللہ پاک کی عنایت ہے۔ اس میں کسی کا کیا عمل دخل ہے۔ بادشاہ حقیقی کے پیغمبر نے جو کچھ فرما دیا وہی قانون ہے۔ اس سے زیادہ صراحت دارقطنی کی روایت میں ہے کہ جب کافر اسلام لاتا ہے اور اچھی طرح مسلمان ہو جاتا ہے تو اس کی ہر نیکی، جو اُس نے اسلام قبول کرنے سے پہلے کی تھی، لکھ لی جاتی ہے اور ہر برائی، جو اسلام قبول کرنے سے پہلے کی تھی، مٹا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک ملتا رہتا ہے اور ہر برائی کے بدلے ایک برائی لکھی جاتی ہے۔ بلکہ ممکن ہے اللہ پاک اسے بھی معاف کر دے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب