السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عام درجے کے جدید سائنسی ذہن کو اللہ کے وجود کا کیسے یقین دلایا جا سکتا ہے؟ کیونکہ اللہ کا وجود تو تجربے اور مشاہدے سے ماورا ہے۔ وہ تو ایمان بالغیب چاہتا ہے۔ جبکہ سائنس تجربے اور مشاہدے کی قائل ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ذات باری تعالیٰ کا مشاہدہ یا تجربہ تو نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ کائنات اور اس کے اندر عظیم الشان نظم و ضبط اور خود انسان کی ہستی اور اس میں ودیعت کی گئی صلاحتیں ذات باری تعالٰی پر دلالت کرتی ہیں، مخلوق کے لیے بدیہی طور پر خالق کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ نے انسانوں کو مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا ہے اور مذکر اور مونث کا وجود اور ان کی خلقت میں تناسب بذات خود خالق کی ایک دلیل ہے، پھر انسانوں کی زبانوں، رنگوں اور شکل و صورت کا مختلف ہونا بھی وجود باری تعالیٰ کی دلیل ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ خَلقُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ وَاختِلـٰفُ أَلسِنَتِكُم وَأَلوٰنِكُم ... ﴿٢٢﴾... سورة الروم
’’اور اس کی نشانیوں میں سے زمین و آسمان کا بنانا بھی ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا الگ الگ ہونا (بھی)۔‘‘
اگر تمام انسان قدوقامت اور رنگ ڈھنگ میں ایک جیسے ہوتے تو کیا کچھ نہ ہوتا۔ انسانی زندگی کا سارے کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ اگر کہیں دو آدمی بھی شکل و صورت میں تھوڑے بہت ملتے ہوں تو عاام لوگ کتنے مغالطوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق انسانوں کی شکل و شباہت میں فرق رکھا ہے۔ چنانچہ اس کائنات میں کوئی دو اشخاص بھی ایسے نہیں ہیں جو پوری طرح یکساں ہوں۔
اسی طرح سبزیوں، پھلوں اور میوہ جات کا ذائقہ اور رنگ الگ الگ ہونا بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَفِى الأَرضِ قِطَعٌ مُتَجـٰوِرٰتٌ وَجَنّـٰتٌ مِن أَعنـٰبٍ وَزَرعٌ وَنَخيلٌ صِنوانٌ وَغَيرُ صِنوانٍ يُسقىٰ بِماءٍ وٰحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعضَها عَلىٰ بَعضٍ فِى الأُكُلِ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايـٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ ﴿٤﴾... سورة الرعد
’’اور زمین میں طرح طرح کے ٹکڑے ہیں جو ایک دوسرے سے ملے جلے ہوئے ہیں۔ اور انگور کے باغ اور کھیتی ہے اور کھجور کے درخت دو شاخے اور الگ الگ جڑ والے سب کو ایک ہی پانی دیا جاتا ہے۔ اور (باوجود اس کے) ہم ذائقے میں ایک کو دوسرے پر فوقیت دیتے ہیں۔ بےشک ان باتوں میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل رکھتے ہیں۔‘‘
انسانوں کا اپنی قسمتوں میں مختلف ہونا بھی وجود باری تعالیٰ کے دلائل میں سے ہے۔ ان گنت براہین اور کونی آیات وجود الہٰی اور اس کی وحدانیت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
"ففى كله شىء له اٰية تدل على أنه واحد"
ارشاد ربانی ہے:
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ خَلقُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ وَما بَثَّ فيهِما مِن دابَّةٍ ...﴿٢٩﴾... سورة الشورىٰ
’’اور اس کی قدرت کے دلائل میں سے ہے یہ بات کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان دونوں میں (ہر قسم کے) جاندار پھیلا دیے۔‘‘
آیت مذکورہ میں دابة (جاندار ہستی) کے وجود کو رب تعالیٰ کے وجود کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔ جدید سائنس بھی طویل تحقیق و تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ تمام حیوانات و نباتات کی تخلیق نخرمایہ (Protoplasm) سے ہوئی ہے جن کے کیمیائی (Chemical) اجزاء آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن، نائٹروجن، فاسفورس، سلفر، کلورین، کیلیشم، سوڈیم اور میگنیشیم وغیرہ بھی دریافت کر لیے گئے ہیں۔ مگر انتہائی کوشش کے باوجود پوری دنیائے سائنس ان کیمیائی اجزا و عناصر (Elements) کو باہم ملا کر پروٹو پلازم بنا لینے میں کامیاب نہ ہو سکی، وہ ان اجزا و عناصر کو لاکھ طرح سے ملاتی ہے مگر وہ پروٹو پلازم نہیں بنتا۔ ایک سائنس دان نے پورے پندرہ سال تک ان عناصر کو ہر طرح سے ترکیب دینے کی کوشش کی، مگر اس میں زندگی کی کوئی رمق بھی نمودار نہ ہوئی۔ اس سے مادیت و دہریت کا یہ دعویٰ باطل ہو جاتا ہے کہ زندگی کا ظہور بغیر کسی خالق (Creator) کے خودبخود ہو گیا اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس عالم ہست و بود میں ایک با ارادہ و اختیار ہستی کی کارفرمائی جاری و ساری ہے۔
(اسلام اور جدید سائنس از محمد شہاب الدین ندوی، ص: 57-58، ط: 1، 1988ء، مکتبہ تعمیرِ انسانیت، اردو بازار لاہور)
باقی رہی یہ بات کہ سائنس صرف تجربے اور مشاہدے کی قائل ہے تو یہ قطعی غلط ہے کیونکہ سائنس دان ان حقائق کو بھی جاننے کا دعویٰ کرتی ہے جو تجربے یا مشاہدے کی گرفت سے باہر ہیں مثلا ایٹم کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ قانونِ تجاذب (Law of gravitation) بالکل ناقابل مشاہدہ ہے۔ اسی طرح ہم انرجی (Energy) کو نہیں دیکھ سکتے مگر اس کی کارستانیوں سے آگاہ ہیں۔ جن کی وجہ سے ہم نے یقین کر لیا کہ قوت (انرجی) نام کی کسی چیز کا وجود ضرور ہے۔ اسی طرح تخلیق کے عمل کی ارتقائی کڑیاں کسی نے بھی نہیں دیکھیں لیکن اس کے باوجود اس کے وجود کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب