السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگوں کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی جاتی ہے تو وہ چڑتے ہیں، بعض تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ تم نے توحید توحید کی رٹ لگائی ہوئی ہے جبکہ قرآن و سنت میں توحید کا لفظ بھی نہیں آیا۔ کیا قرآن و حدیث میں لفظ "توحید" استعمال نہیں ہوا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
توحید دین اسلام کی اساس ہے۔ توحید کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کو ایک قرار دینا، ایک کو عربی زبان میں واحد اور احد کہا جاتا ہے۔ جبکہ احد اور واحد اللہ تعالیٰ کے الاسماء الحسنیٰ ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُل هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾... سورة الإخلاص
’’کہیے کہ اللہ ایک ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے الواحد ہونے کا تذکرہ درج ذیل آیات میں ہے:
(1) ﴿ءَأَربابٌ مُتَفَرِّقونَ خَيرٌ أَمِ اللَّهُ الوٰحِدُ القَهّارُ ﴿٣٩﴾... سورة يوسف
’’بھلا کئی جدا جدا رب اچھے یا یکتا و بڑا غالب اللہ؟‘‘
(2) ﴿ قُلِ اللَّهُ خـٰلِقُ كُلِّ شَىءٍ وَهُوَ الوٰحِدُ القَهّـٰرُ ﴿١٦﴾... سورة الرعد
’’کہہ دو کہ اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور وہ یکتا و غالب ہے۔‘‘
(3) ﴿وَبَرَزوا لِلَّهِ الوٰحِدِ القَهّارِ ﴿٤٨﴾... سورة ابراهيم
’’وہ سب یگانہ اور بڑے زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے۔‘‘
(4) ﴿ وَما مِن إِلـٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الوٰحِدُ القَهّارُ ﴿٦٥﴾... سورة ص
’’اللہ یکتا و بڑے غالب کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
(5) ﴿ هُوَ اللَّهُ الوٰحِدُ القَهّارُ ﴿٤﴾... سورة الزمر
’’وہی اللہ یکتا، بڑا غالب ہے۔‘‘
(6) ﴿لِمَنِ المُلكُ اليَومَ لِلَّهِ الوٰحِدِ القَهّارِ ﴿١٦﴾... سورة المؤمن
’’آج کس کی بادشاہت ہے؟ اللہ کی جو اکیلا اور بڑا غالب ہے۔‘‘
بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ کے " اله واحد" ہونے کا تذکرہ ملتا ہے، چند آیات ملاحظہ کریں:
﴿وَإِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ وٰحِدٌ ...﴿١٦٣﴾... سورة البقرة
﴿ إِنَّمَا اللَّهُ إِلـٰهٌ وٰحِدٌ...﴿١٧١﴾... سورةالنساء
﴿وَما مِن إِلـٰهٍ إِلّا إِلـٰهٌ وٰحِدٌ...﴿٧٣﴾... سورة المائدة
﴿إِنَّما هُوَ إِلـٰهٌ وٰحِدٌ ...﴿١٩﴾... سورة الانعام
﴿أَنَّما إِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ وٰحِدٌ...﴿١١٠﴾... سورة الكهف
﴿فَإِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ وٰحِدٌ...﴿٣٤﴾... سورة الحج
﴿إِنَّ إِلـٰهَكُم لَوٰحِدٌ ﴿٤﴾... سورة الصافات
﴿وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدوا إِلـٰهًا وٰحِدًا ... ﴿٣١﴾... سورة التوبة
کفار و مشرکین توحید الہٰی سے بدکتے تھے، جبکہ انبیاء و رسل علیہم السلام لوگوں کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتے تھے اور اپنے ماننے والوں کو بھی توحید کا پرچار کرنے کی تلقین کرتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذا ذَكَرتَ رَبَّكَ فِى القُرءانِ وَحدَهُ وَلَّوا عَلىٰ أَدبـٰرِهِم نُفورًا ﴿٤٦﴾... سورة الإسراء
’’اور جب تم قرآن میں اپنے رب یکتا کا ذکر کرتے ہو تو وہ بدک جاتے ہیں اور پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں۔‘‘
﴿وَإِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَحدَهُ اشمَأَزَّت قُلوبُ الَّذينَ لا يُؤمِنونَ بِالءاخِرَةِ ...﴿٤٥﴾... سورة الزمر
’’اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں۔‘‘
﴿ذٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذا دُعِىَ اللَّهُ وَحدَهُ كَفَرتُم ...﴿١٢﴾... سورة المؤمن
’’یہ اس لیے کہ جب تنہا اللہ کو پکارا جاتا ہے تو تم انکار کر دیتے ہو۔‘‘
سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں نے کہا تھا:
﴿وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَدٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ ...﴿٤﴾... سورة الممتحنة
’’اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہو گیا یہاں تک کہ تم اس اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ۔‘‘
مذکورہ بالا آیات کے علاوہ بہت سی احادیث میں ایسے الفاظ ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کرتے تھے۔ لا الہ الا اللہ توحید ہی تو ہے جس کی دعوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو پیش کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"يا أيها الناس قولوا لا إله إلاّ الله تفلحوا"
’’لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ دو، تم فلاح پا جاؤ گے۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مناسک حج ادا کرتے ہوئے کوہ صفا پر چڑھے حتی کہ بیت اللہ نظر آنے لگا فكبر الله و واحده
’’تو آپ نے اللہ اکبر کہا اور اللہ کی توحید بیان کی۔‘‘
آپ نے یہ کلمات پڑھے:
"لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيى و يميت وهو على كل شىء قدير لا اله الا الله وحده انجز وعده و نصر عبده وهزم الاحزاب وحده"(مسلم، الحج، حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ح 1218، ابوداؤد، المناسک، صفة حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ح: 1905)
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، سلطنت اسی کی ہے، تعریف کا حقدار وہی ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے اور وہی ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد کی اور تمام گروہوں کو اُس اکیلے ہی نے پسپا کر دیا۔‘‘
اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشعر الحرام (مزدلفہ) پر آئے تو بھی آپ نے اللہ کی توحید بیان کی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا:
(فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَى أَنْ يُوَحِّدُوا اللَّهَ تَعَالَى)(بخاري، التوحید، ما جاء فی دعا النبی امته الی توحید اللہ تبارک و تعالیٰ،ح: 7372، بیہقي 7/2)
’’سب سے پہلے انہیں اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا۔‘‘
احادیث میں لفظ "التوحید" اور "اھل التوحید" بھی موجود ہے، نیز محدثین اور شارحین حدیث نے توحید سے متعلق احادیث بیان کرتے وقت تبویب میں لفظ توحید اکثر استعمال کیا ہے۔ (من شهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له) حدیث پر مسلم (کتاب الایمان) میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے:
الدلیل علم من مات علی التوحید دخل الجنة قطعا (ح: 28)
’’اس بات کی دلیل کہ توحید پر فوت ہونے والا شخص قطعی طور پر جنتی ہے۔‘‘
عاص بن وائل سہمی نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی کہ وہ سو اونٹ نحر کرے گا (وہ فوت ہو گیا تو اس نے ایک بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ نحر کر دیے جبکہ (دوسرے بیٹے) عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) نے اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:
(أَمَّا أَبُوكَ ، فَلَوْ كَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ ، فَصُمْتَ ، وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ ، نَفَعَهُ ذَلِكَ)
’’اگر تمہارے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا تو تم اس کی طرف سے روزے رکھ لیتے اور صدقہ ادا کر دیتے تو یہ عمل اسے فائدہ دیتا۔‘‘
اس حدیث میں لفظ " التوحيد" واضح طور پر موجود ہے۔ بعض روایات میں اہل التوحید کی عظمت بھی بیان کی گئی ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(يُعَذَّبُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ التَّوْحِيدِ فِي النَّارِ حَتَّى يَكُونُوا فِيهَا حُمَمًا ثُمَّ تُدْرِكُهُمُ الرَّحْمَةُ فَيُخْرَجُونَ وَيُطْرَحُونَ عَلَى أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ، قَالَ : فَيَرُشُّ عَلَيْهِمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْمَاءَ ، فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْغُثَاءُ فِي حِمَالَةِ السَّيْلِ ثُمَّ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ)(ترمذي، صفة جھنم، ماجاء ان للنار نفسین وما ذکر من یخرج من النار من اھل التوحید، ح: 2597)
’’اہل توحید کے کچھ لوگوں کو جہنم کا عذاب دیا جائے گا حتی کہ وہ اس میں کوئلہ ہو جائیں گے، پھر ان پر رحمتِ الہٰی ہو گی تو انہیں نکال کر جنت کے دروازوں پر ڈال دیا جائے گا، آپ نے فرماایا: اہل جنت ان پر پانی چھڑکیں گے تو وہ لوگ ایسے نکلیں گے جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ میں دانا اُگ آتا ہے، پھر وہ (اہلِ توحید) جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘
اس حدیث میں لفظ "التوحيد" صراحت کے ساتھ موجود ہے، لہذا توحید سے چڑنے کی بجائے توحید کے دااعی بن کر سعادتِ دارین حاصل کریں۔
علاوہ ازیں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
(أَنَّ رَجُلًا لَمْ يَعْمَلْ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئًا قَطُّ إِلَّا التَّوْحِيدَ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ) (مسند احمد: 398/3، بسند حسن)
نیز سیدہ یسیرہ سے مروی ہے:
«عليكن بالتسبيح و التهليل والتقديس ولا تغفلن فتنسين التوحيد » (مستدرک حالم 547/1، بسند حسن)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب