ایک شخص کی بیوی کتابیہ ہے، یعنی مسلمان نہیں۔اس نےزنا کرنےکا اعتراف کیا۔ ابھی اس کاحمل صرف چار ہفتے کاہے اور مرد کوبھی یقین ہےکہ یہ بچہ اس کانہیں ہےکیونکہ وہ مانع حمل طریقے استعمال کرتارہاہےتوکیا وہ بچہ اسقاطِ حمل کےذریعے ضائع کرسکتا ہے؟
علماء نےان دو حالتوں میں فرق روا رکھا ہے۔
وہ جنین جس میں روح پھونکی جاچکی ہے، یعنی حمل کےچار ماہ گزر چکے ہیں، دوسرے وہ جنین جس میں ابھی روح نہیں پھونکی گئی ہے۔
جہاں تک پہلی صورت کاتعلق ہے تواسقاط سرے سے ناجائز ہے،الا یہ کہ اس بچے کی وجہ سےحمل میں اتنی پیچیدگی پیدا ہوچکی ہوکہ ماں کی جان خطرے میں ہو۔اور جہاں تک دوسری صورت کاتعلق ہےتوعام حالات میں ایسے جنین کااسقاط کرانا بھی ناجائز ہے۔ابن حزم لکھتےہیں: وہ جنین جس کےبعض اعضاء بن چکے ہوں مکمل جنین کی طرح ہے۔
اگرکوئی شخص مارپیٹ کی وجہ سے ایسی عورت کاجنین گرادے تواس پروہی دیت واجب ہوگی جوکہ مکمل جنین کےگرانے پرعائد ہوتی ہے،یعنی ایک غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا۔
لیکن اگر اس مدت میں اسقاط کرانے کاکوئی معقول سبب ہوتوپھرابارشن(اسقاط حمل) کرایا جاسکتاہے۔بوسنیا کی جنگ میں بےشمار مسلمان خواتین عیسائی سربوں سےزنا بالجبر کےتحت حاملہ ہوئیں اوراس وقت یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیاوہ اسقاط کراسکتی ہیں یانہیں۔
بعض علماء کاخیال تھا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس بچے کا توکوئی قصور نہیں جواس ناجائز حمل کی بنیاد پراس دنیا میں آنے والا ہے۔ اوراس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اس معصوم بچی کی جسے جاہلیت کےزمانہ میں بعض عرب زندہ زمین میں دفن کردیا کرتےتھے اور جس کےبارے میں قرآن نےکہا:
’’ جب زمین میں گاڑی جانےوالی بچی سےپوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں قتل کیاگیا؟،،
کچھ علماء کاخیال تھا کہ یہ عورتیں اسقاط کراسکتی ہیں کیونکہ اول توناجائز حمل ہے، دوسرا یہ بچہ ساری عمر اس بہیمانہ عمل کی یاد دلاتا رہے گا جو ان خواتین کےساتھ ہوا۔
میرا میلان پہلی رائے کی طرف ہے، بچے کااسقاط نہ کرایا جائے لیکن عورت کوطلاق دے کر فارغ کردیا جائے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب