کیا مسلمان اپنے غیرمسلم منیجرسےچھٹی لینے کےلیے جھوٹ بول سکتاہے؟
جھو بولنا حرام ہے۔ اگر جان پربن رہی ہو،یعنی اپنے آپ کو قتل یاایذا سےبچانے کےلیے جھوٹ بولنا پڑتا ہےتواس کی اجازت دی گئی ہے۔بحوالہ آیت کریمہ (اِلاّ من اُكرهَ وقلبُه مطمئن بالايمان﴾
’’ مجبور کردیا جائے لیکن دل ایمان پرمطمئن ہو۔،،
اور یہ کلمہ کفر بھی جھوٹ ہی کی ایک شکل ہے۔
البتہ توریہ کاجواز بھی ثابت ہے،یعنی ایک ذومعنی بات کی جائے،مخاطب یہ سمجھے کہ آپ نے اس کی مرضی کی بات کہہ دی ہے،حالانکہ آپ خود اس بات کادوسرا مطلب لےرہےہوں،جیسے حضرت ابراہیم نےاپنی قوم کوجواب دیا تھا:(انی سقیم)’’ میں بیمار ہوں،، جب انہوں نےان کواپنے میلے ٹھیلے میں آنے کی دعوت دی تھی۔
گویا آپ کےجواب سے وہ تویہ سمجھےکہ حضرت ابراہیم واقعی بیمار ہیں، اس لیے ان کےساتھ جانے سےمعذور ہیں جبکہ حضرت ابراہیم کااس جملہ سےیہ قصد تھا کہ میں تمہاری باتوں سےاتنابیزار ہوں کہ بیمار ہوچلاہوں۔
انگریزی میں اس کاصحیح مفہوم ادا ہوتاہے،یعنی’’I am sick of you ،،
توریہ کی ایک دوسری مثال: ایک مسلمان کومجبور کیا گیاہوکہ کہو: خداتین ہیں،، وگرنہ ماردیے جاؤ گےتو اس نےاپنی تین انگلیوں کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہ’’ہاں تین ہیں،،یعنی مخاطب یہ سمجھا کہ اس نےتین خداؤں کااقرار کرلیا ہےجبکہ اس کااپنا ارادہ صرف یہ ہےکہنےکا تھاکہ یہ میری تین انگلیاں ہیں۔
ایک حدیث کےمطابق میاں بیوی میں صلح کرانے کےلیے جھوٹ بولا جاسکتاہے، یعنی بیوی سےکہاجائے کہ تم توخواہ مخواہ ناراض ہوتی ہو، تمہارامیاں تو تمہارے بارے میں یہ اچھے اچھے الفاظ کہہ رہاتھا۔ اسی طرح مرد سےبھی یہ بات کہی جاسکتی ہے۔
( یہ حدیث مطلق ہے، یعنی صلح کےلیے فریقین کےساتھ فریق مخالف کی بابت جھوٹ بولا جاسکتا ہے، صرف میاں بیوی کےمعاملے میں نہیں بلکہ ہرمعاملے میں۔ دیکھیے:صحیح البخاری، الصلح، حدیث:2692، وصحیح مسلم،البروالصلۃ والادب ،حدیث:2605)
ایک حرام چیز(جیسے جھوٹ) کاارتکاب اس وقت بھی کیاجاسکتاہےجبکہ ایک بڑے فتنے سےبچنا مقصود ہو۔ فرض کریں کہ آپ کےوالدین غیرمسلم ہیں یامسلمان توہیں لیکن بدعات وخرافات میں مبتلا ہیں اوروہ نہیں چاہتے کہ آپ کسی ایسی محفل میں شریک ہوں جس میں کتاب وسنت کی صحیح اوردرست بات کی جائے توآپ کہہ سکتےہیں کہ میں چھٹی پرگھومنے پھرنے کےلیے جارہاہوں یاکسی دوست سےملاقات کےلیے جارہاہوں۔ اس طرح آپ گھر میں ہونےوالے ایک بڑے فتنے (یعنی والدین سےشکررنجی وناراضی) سےبچ جائیں گے۔
یعنی پہلے ان سوالات کوسوچ لیں: کیا چھٹی پرجانا بہت ضروری ہے؟ کیااگر آپ چھٹی پرنہ گئے تو کوئی بہت بڑا فساد رونما ہوجائے گا؟ البتہ اگر آپ کوچھٹی حاصل کرنے کا ملازمت کےقواعد کےلحاظ سے حق حاصل ہےتو اورمنیجر بلاسبب آپ کو چھٹی نہیں دے رہا ہے تومعاملہ اتنا سنگین نہیں رہا،آپ اپنا حق استعمال کریں۔آپ کوویسے ہی جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب