سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) غیر مسلم پڑوسیوں سے ملنا اور تبادلہ تحائف کرنا

  • 23357
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1039

سوال

(70) غیر مسلم پڑوسیوں سے ملنا اور تبادلہ تحائف کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غیرمسلم پڑوسیوں کےساتھ ملنا جلنا،انہیں تحائف دینا کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غیرمسلم افراد کےساتھ معاملات، میل جول اوردوستی کی دوسطحیں ہیں۔ ایک سےہمیں منع کیا گیا اورایک اجازت دی گئی ہے۔جس سےمنع کیا گیا وہ ہے’’موالاۃ،،یعنی دانت کاٹی کی دوستی کہ جس کی بناپرآپ اپنے بھیداورراز میں بھی انہیں شریک کریں، حالانکہ ان کی عداوت بھی ظاہرہو۔اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا اليَهودَ وَالنَّصـٰرىٰ أَولِياءَ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَإِنَّهُ مِنهُم إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الظّـٰلِمينَ ﴿٥١﴾... سورة المائدة

’’ اے ایمان والو! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں کسی سے دوستی کرے وه بےشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راه راست نہیں دکھاتا ،،(المائدہ 5: 51)

ایسا ہی حکم رسول اللہ ﷺ کےمدمقابل مشرکین عرب کاتھا  جن کی عداوت ظاہر تھی۔فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ تُلقونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَقَد كَفَروا بِما جاءَكُم مِنَ الحَقِّ...﴿١﴾... سورةالممتحنة

’’ اے وه لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وه اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں،،

میرے دشمن سےمراد وہ دشمن جوعقیدہ توحید کی بناپر دشمنی رکھتا ہواور تمہارے دشمن سےہروہ شخص یاقوم مراد ہےجوقومیت، وطن،زبان، قبیلہ یاکسی دوسرے سبب کی بنا پردشمنی رکھتی ہو، اسی لیے ایک اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کوایسے مناصب پرفائز نہیں کیا جانا چاہیے جن کی بدولت وہ خود مسلمانوں ہی کونقصان پہنچائیں۔

پاکستان بنتےہی کشمیر کی بناپر جوپہلی جنگ ہندوستان نےاپنی فوج سرینگر میں اتار کرپاکستان پرمسلط کی تھی،اس وقت پاکستانی فوج کاسربراہ ایک غیرمسلم تھا جس نے قائداعظم کےاحکامات کی تعمیل میں لیت ولعل سےکام لیااورجس کےنتیجے میں  کشمیر ہندوستان کےقبضے میں چلا گیا۔بالکل ایسا ہی واقعہ عرب، اسرائیل کی پہلی جنگ (1948ء) میں ہوا کہ شرق اردن کی فوجوں کاسربراہ بھی ایک غیرمسلم تھا اوراس نے اسرائیل کےمقابلے میں عرب فوج کواس طرح لڑایا کہ عرب فوج کسی بھی طرح فتح حاصل نہ کر پائی۔

یہ تو قومی سطح کی بات تھی، ذاتی سطح پربھی اگر آپ ایک غیر مسلم کےہم نوالہ اورہم پیالہ بن جائیں توآپ کےبہت سے راز آپ کےدوست تک پہنچ جائیں گےاوروہ کسی وقت آپ کےلیے باعث تکلیف بھی بن سکتا ہے۔

جس بات کی اجازت دی گئی اس کا قاعدہ کلیہ سورہ الممتحنہ کی ان دوآیات میں واضح کردیا گیا ہے:

﴿لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيـٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨﴾... سورة الممتحنة

’’ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔،،

﴿إِنَّما يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ قـٰتَلوكُم فِى الدّينِ وَأَخرَجوكُم مِن دِيـٰرِكُم وَظـٰهَروا عَلىٰ إِخراجِكُم أَن تَوَلَّوهُم وَمَن يَتَوَلَّهُم فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴿٩﴾... سورة الممتحنة

’’ اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں شہر سے نکال دیئے اور شہر سے نکالنے والوں کی مدد کی جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وه (قطعاً)ظالم ہیں۔،،

ان دونوں آیات سےواضح ہوگیا کہ ان لوگوں کےساتھ اچھائی اورانصاف کاسلوک کیا جاسکتاہےجنہوں نے نہ تومسلمانوں کےساتھ لڑائی کی اورنہ انہیں گھروں ہی سے نکالا۔

یوپ کےممالک نےعمومی طورپر کتنے ہی مسلمانوں کوپناہ دی ہے،بے گھروں کوگھر دیے ہیں بلکہ یہاں کی حکومتیں بےروز گاروں کوہفتہ وار الاؤنس بھی دے رہی ہیں، اس لیے ان لوگوں کےساتھ اچھاسلو ک کرنا، تحفے تحائف دینا اوردین کی دعوت دینے کےلیے ان کےگھرجانا اپنےگھر بلانا، بیماری کےعالم میں عیادت کےلیے جانا، راہ چلتے ان کاحال احوال پوچھنا سب جائز ہے۔

یورپ ہی میں ایک ایسی قوم بھی تھی،یعنی صرب جنہوں نے بوسنیا کےمسلمانوں کاقتل عام کیا، انہیں اپنےگھروں سےنکالا۔ ایسے ہی سرزمین فلسطین میں صہیونی یہودیوں نےفلسطین کوان کےگھروں سےنکالا اوران کوقتل عام کیا۔ گویا ہمارے سامنے وہ میزان موجود ہےکہ جس سےہم خودہی یہ اندازہ لگا سکتےہیں کہ کن لوگوں کےساتھ اچھاسلوک کیاجاسکتاہےاورکن کےساتھ نہیں۔دوستی کامعیاربھی معلوم ہوگیا کہ اتنی گہری دوستی کہ جس  سے مسلمانوں کےراز دشمنانِ اسلام تک پہنچ جائیں وہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔

یہاں ایک سوال سراٹھاتا ہےکہ ایک مسلمان کواہل کتاب(یہودی اورعیسائی)عورتوں کےساتھ نکاح کی اجازت دی گئی ہے۔انسان کی بیوی اس کی راز دان ہوتی ہےتو کیا یہ وہی دوستی نہیں جس سےمنع فرمایاگیا؟

جواباً عرض ہےکہ ایک مسلمان مرد اورکتابی عورت میں شادی اسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ دونوں ایک دوسرے سےمحبت کرتےہوں، دونوں ایک دوسرے پراعتماد کرتے ہوں۔ عورت عموماً مرد کےاثر میں ہوتی ہے،اس لیے اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مرد کےراز افشاکرے گی اوریا اسے نقصان پہنچانےکی کوشش کرےگی۔اس بات کاقوی امکان رہتاہےکہ ایسی عورت ایک مسلمان کےعقد میں آجانے کےبعد اسلام قبول کرلے،ان مصلحتوں کی بناپریہودونصاریٰ سےعمومی عدم موالات کےضمن میں نکاح ایک استثنا کی حیثیت رکھتاہے لیکن اگرمسلمان کوکتابی عورت سےشادی کرنے کےکچھ عرصہ بعد یہ احساس ہوجائے کہ اس کی بیوی اسلام سےدشمنی رکھتی ہے،بچوں کواپنے دین کی تعلیم دینے  لگی ہے، یاشوہر کےراز غیروں کوپہنچارہی ہے،خاص طورپر جبکہ شوہر کسی اہم منصب پرفائز ہوتوایسے مسلمان شوہر کےلیے ہرگز جائز نہ ہوگا کہ وہ رشتہ ازدواج باقی رکھے۔اسے ایسی عورت کوطلاق دے کر جلد از جلد فارغ کردینا چاہیے۔

تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہےجس میں مسلم سلاطین(چاہے ان کاتعلق ہندوستان سےہو یا دولت عثمانیہ سے) کی یہودی اورعیسائی بیویوں نےمسلم سلطنت کو زک پہنچانے اورمسلمانوں کےراز دشمنوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایک سوال اور بھی کیا جاتاہے کہ یورپین اقوام اوراسی طرح امریکہ نےگومقامی مسلمان کی مدد کی ہے، انہیں گھروں میں بسایا ہےلیکن اسرائیل کی حدتک اسے اتنی امداد ضرور مہیا کی ہے جس سےوہ فلسطینیوں کواپنےگھروں سےنکالنے پرقادر رہاہے تومندرجہ بالا آیت کی روشنی میں ان سےبھی دوستی ناجائز ہونی چاہیے۔

ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایسی دوستی کہ جس سےآپ کےراز ان تک پہنچ جائیں تووہ جائز ہی نہیں۔ہاں اس سے کم تر درجہ پران اقوم کےساتھ اچھائی اورانصاف کاسلوک رکھنارواہے۔یہ بات بھی عیاں ہےکہ حکومتوں کی پالیسی مین بےحد چارے عوام کازیادہ داخل نہیں ہوتا۔ آئے دن پول بتاتےہیں کہ عوام کی ساٹھ فیصد،اس سے زیادہ یااس سےکم تعداد حکومت کی خارجہ پالیسیوں کی حمایت نہین کرتی ہے،اس لیے ہم کہیں گے کہ غیرمسلم عوام کوحکومت کی غیرمنصفانہ پالیسیوں کی بنا پر نفرت کانشانہ نہ بنایا جائے بلکہ ان کےساتھ اچھائی اورانصاف کابرتاؤ ہی کیاجائے جیسا کہ سورۃ الممتحنہ کی مندرجہ بالا دونوں آیات میں واضح کیا گیا ہے۔واللہ اعلم

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

اخلاق وآداب کےمسائل،صفحہ:394

محدث فتویٰ

تبصرے