سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(51) انفرادی طور پر مارکیٹ سے کم ریٹ پر چیز فروخت کرنا

  • 23338
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 923

سوال

(51) انفرادی طور پر مارکیٹ سے کم ریٹ پر چیز فروخت کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک ٹیک اوے ریستوران کامالک ہوں۔ میرے پڑوس میں ایک دوسرے مسلمان کا بھی ویسا ہی بزنس ہے۔ پچھلے دنوں اس نےبازار کےمقابلے میں اپنے ریٹ آدھے کردیے، چنانچہ لوگوں کارجوع اس کی طرف ہوگیا اورمجھے کافی خسارہ ہواتوکیا شرعاً ایسا کرنا اس کےلیے جائز تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے میں پہلے دوائمہ کی رائیں ملاحظہ ہوں:

مؤطا کی روایت کےمطابق امام مالک ﷫ نےایسا کرنے سےمنع کیا ہے۔وہ لکھتےہیں کہ حضرت عمربن خطاب ﷜ حاطب بن ابی بلتعہ﷜ کےپاس سےگزرے جوبازار میں کشمش بیچ رہےتھے۔ حضرت عمر﷜ نےان سے کہا:یاتو اپنا نرخ پڑھاؤ یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔

امام مالک ﷫ کہتےہیں: ا‎گر کوئی شخص بازار کوخراب کرنا چاہے اوراس مقصد کےلیے نرخ گھٹادے تواس سےکہا جائےگا: یا تولوگوں کاسا نرخ رکھواور یا پھر یہاں سےرخصت ہوجاؤ۔( المجموع شرع المہذب : 13؍34 )

امام شافعی﷫ نےاس رائے اختلاف کیا ہے۔مذکورہ بالا روایت کومحدث ’’دراوردی،، سےلیتے ہیں۔انہوں نے یہ روایت اس طرح بیان کی ہےکہ حضرت عمر﷜ عیدگاہ والی مارکیٹ میں حاطب بن ابی بلتعہ کےپاس سےگزرے جواپنے سامنے دو تھیلیوں میں کشمش بیچ رہےتھے۔انہوں پوچھا کہ نرخ کیا ہے؟ حاطب ﷜ نےجواب دیا: ایک درہم میں مُدّ۔ حضرت عمر﷜ نےکہا:مجھے بتایا گیا ہےکہ طائف سےایک قافلہ کشمش لے کرآیاہے، وہ تمہارے اس نرخ سےدھوکا کھا جائیں گے، لہذا یا تو نرخ بڑھاؤ اوریاپھر اپنی کشمش گھرلےجاؤ اور وہاں جس نرخ سےچاہوبیچو۔

اس کےبعد حضرت عمر﷜ گھرے لوٹے اوردوبارہ اس معاملے پرغور کیا،پھر حاطب کےپاس ان کےگھر آئے اورکہا:جو میں تم سے کہا تھا،وہ میراحکم تھا نہ ہی فیصلہ بلکہ میں نے اہل مدینہ کی بھلائی چاہی تھی، لہذا جاؤ جہاں اورجیسے چاہو بیچو۔

امام شافعی ﷫ کہتےہیں : یہ حدیث مشہور ہےاور امام مالک ﷫ کےقول کےمخالف بھی نہیں کیونکہ انہوں نے حدیث کاکچھ حصہ بیان کیا ہےیا ان سےروایت کرنے والوں نےحدیث کاایک ٹکڑا لے لیا ہےلیکن دروردی نےحدیث اول تاآخر ساری بیان کی ہے اور اس کےمطابق میں کہتا(مسئلہ بیان کرتا) ہوں کیونکہ لوگوں کا اپنےاموال پرحق ہے۔ کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ ان کی مرضی کےبغیر ان کاسارا مال یاکچھ مال وصول کرلیں سوائے ان صورتوں کےکہ جس میں ایسا کرنا جائز ہواور جہاں تک مذکورہ بالا صورت کاتعلق ہےتووہ ناجائز صورتوں میں سے نہیں ہے۔( المجموع شرح المہذب:13؍35، والحاوی فی فقہ الشافعی :5؍407 )

مندرجہ بالا تفصیل سےمعلوم ہوا کہ اگر قیمتوں کےبہت زیادہ اتار  چڑھاؤ سے لوگوں کونقصان پہنچنےکا اندیشہ ہوتوحکومت نرخ مقرر کرسکتی ہے،وگرنہ عام حالات میں ہردکان دارکو اپنا نرخ متعین کرنےکی اجازت ہے۔

اس موضوع پرامام ابن قیم نےاپنی کتاب الطرق الحکمیۃ میں بحث کی ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

حلال وحرام کےمسائل،صفحہ:359

محدث فتویٰ

تبصرے