سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) انگلینڈ کے مسلمانوں کا دوسرے ممالک میں اپنی قربانی کروانا

  • 23330
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 911

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ای میل کےذریعے سےیہ سوال پوچھا گیا ہےکہ آیا انگلینڈ کےمسلمان کسی دوسری ملک میں اپنی قربانی کرواسکتےہیں یا نہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی اٹھایا گیا ہےکہ حال ہی میں میڈیا پرایک صاحب نےایسی قربانی کوناجائز ٹھہرایا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عرض ہےکہ اس بات میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ ہرگھر پرایک قربانی واجب (اوربعض فقہاء کےنزدیک سنت موکدہ ) ہےاور یہ کہ نبیﷺ نےاپنے ہاتھ سے قربانی کےجانور ذبح کیے جیسا کہ جابر بن عبداللہ ؓ کی روایت سےمعلوم ہوتاہے۔

وہ کہتےہیں کہ میں نےرسول اللہﷺ  کےساتھ نماز عید پڑھی۔ آپ نےخطبہ ختم کرنے کےبعد اپنےہاتھ سےایک مینڈھا ذبح کیااور الفاظ کہے:

« بسم الله والله اكبر،هذا عنى وعمن لم يضح من امتى»

اس بات میں بھی اختلاف نہیں کہ قربانی کرنےکےلیے کسی کواپنا نائب بنایا جاسکتاہے۔ نبی ﷺ نےحجۃ الوداع کےموقع پرتریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح کیے اور باقی 37 اونٹوں  کو ذبح کرنےکےلیے حضرت علی ﷜ کوہدایت کی۔

اوربروایت امام مالک اوربخاری ، حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نےاپنی طرف سے اور اپنےگھروالوں کی طرف سےایک گائے ذبح کی۔

یہ بھی حجۃ الوداع کاموقع تھا۔وہ کہتی ہیں: قربانی والے دن ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔میں نےپوچھا: یہ کیسا گوشت ہےتو لوگوں نےبتایا کہ نبیﷺ نےاپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔

ابن قدامہ ’’ المغنی،، میں لکھتےہیں:

مسئلہ : مستحب یہی ہےکہ مسلمان ذبح کرے، اگراپنے ہاتھ سےذبح کرےتو افضل ہےکیونکہ رسول اللہﷺ  نےاپنے ہاتھ سےذبح کیا تھا اوراس لیے بھی کہ آپ کایہ فعل تقرب انہی کےلیے تھاکہ جس کاخود کرنا کسی کونائب بنانے سےاولیٰ ہے۔ لیکن اگر کسی کونائب مقرر کردیے تب بھی جائز ہوگا کیونکہ نبیﷺ  نےتریسٹھ اونٹ ذبح کرنے کےبعدباقی کےلیے نائب مقرر  کردیا تھا۔اور اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہےکہ حضرت ابن عباس  کی طویل حدیث کےمطابق  آدمی کاذبیحہ کےوقت حاضر رہنا مستحب ہے۔فرمایا: جب تم ذبح کروتو حاضر رہوکیونکہ ذبیحہ کےخون کےپہلے قطرے کےساتھ تمہاری مغفرت ہوجائے گی۔

نبی اکرمﷺ سےروایت کی گئی ہےکہ آپ ﷺ نےحضرت فاطمہ سےکہا:اپنی قربانی کےموقع پرحاضررہو۔اس کےخون کےپہلے قطرے کےساتھ تمہارے مغفرت کی جائے گی۔ (المغنی : 21؍495- 496)

شیخ ابوبکر جابر الجزائری اپنی کتاب ’’ منہاج المسلم ،، میں لکھتےہیں:

’’ مستحب تویہی ہےکہ ذبح خود کرے۔ اگر ذبح کرنے کےلیے دوسرے کواپنا نائب بنا دے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ اس بارےمیں علماء میں کوئی  اختلاف ہی ہے۔،،

ڈاکٹر حسام الدین عفانہ پروفیسر القدس یونیورسٹی (فلسطین) اپنی کتاب ’’ یسالونک،، میں لکھتےہیں:

’’ اہل علم اس بات پرمتفق ہیں کہ قربانی کےذبح کرنے میں نیابت جائز ہے، اس لیے اگر ایک شخص کسی دوسرے شخص کوقربانی ذبح کرنےاور اس کوگوشت تقسیم کرنےمیں  نائب بناتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بہتر یہی ہےکہ قربانی کرنے والا خود قربانی کرےاگر وہ خود ذبح کرنا جانتا ہو اور اگر خود اچھی طرح ذبح نہ کرسکتا ہوتو کسی دوسرے کواپنا وکیل بنادے۔،،

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

حج و قربانی کےمسائل،صفحہ:339

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ